وجہ اوّل! یہ کہ دیکھو اصحاب کو قبل وقوع کے حقیقت پیشین گوئی کی معلوم ہوگئی تھی کہ اس سے مکہ کو جانا مراد ہے اور کچھ نہیں اسی بناء پر جب آئندہ سال کے واسطے مصالحت ہوگئی۔ (چنانچہ تفصیلی قصہ صحیح بخاری میں مذکور ہے) تو حضرت عمرؓ نے رسول اﷲﷺ سے عرض کیا کہ آپﷺ نے تو فرمایا تھا کہ ہم بیت اﷲ کو جاویں گے اور وہیں خانہ کعبہ کو طواف کریں گے۔ دیکھو حضرت عمرؓ نے پیشین گوئی کے معنی میں بالکل شک نہیں کیا کہ شاید اس کی کچھ اور حقیقت ہو۔ بلکہ اس کی معنی میں یقین کر کے اور جزماً اس معنی کو مان کر اپنی نظر میں خلف وعدہ دیکھ کر عرض کیا۔
وجہ ثانی! یہ کہ رسول اﷲﷺ نے ان کے جواب میں یہ فرمایا کہ پیشین گوئی کی حقیقت قبل وقوع کے علوم ظاہر سے نہیں معلوم ہوسکتی ہے۔ تم ابھی کیوں اعتراض کرتے ہو۔ بلکہ ان کے جان لینے کو قبل وقوع کے مسلم رکھ کے فرمایا کہ میں نے یہ کہا تھا کہ اسی سال میں جاویں گے؟ تو حضرت عمرؓ نے عرض کیا کہ نہیں تو آپﷺ نے فرمایا کہ بس جانا ہوگا اور طواف بھی کریں گے۔ تو اس قصہ میں تقریر نبویﷺ سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ قبل وقوع کے حقیقت پیشین گوئی کی معلوم ہو جاتی ہے۔ پس یہ حدیث قاعدہ ومطلب صاحب رسالہ کو مبطل ہے نہ مثبت اس کو صاحب رسالہ کا اپنا شاہد بنانا بڑی جائے تعجب ہے۔ پھر واضح رہے کہ یہ کہنا صاحب رسالہ کاکہ آنحضرتﷺ کی رائے عالی بھی اوّلاً صحابہ کرام کے ہی موافق رہی۔ جب تک کہ اس کا ثبوت کسی روایت صحیح سے نہ دیں۔ رسول اﷲﷺ پر افتراء باندھنے میں داخل ہوگا۔ بھلا یہ کہاں سے معلوم ہوا کہ نبی صاحب بھی صحابہ کے ساتھ خطاء میں شریک تھے۔ دیکھو نبی صاحب تو حضرت عمرؓ کے جواب میں فرماتے ہیں۔ چنانچہ صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت عمرؓ نے عرض کیا۔ ’’اولیس کنت تحدثنا انا سناتی البیت فنطوف بہ‘‘ یعنی آپﷺ تو فرماتے تھے کہ ہم لوگ بیت اﷲ جاویں گے اور اس کا طواف کریں گے۔ رسول اﷲﷺ نے جواب میں ارشاد فرمایا۔ ’’بلٰی فاخبر تک انا ناتیہ العام قلت لا قال فانک آتیہ ومطوف بہ‘‘ دیکھو رسول اﷲ تو فرماویں کہ میں نے یہ کب کہا تھا کہ اسی سال میں جاویں گے اور تم کہو کہ پہلے تو رسول اﷲﷺ کی بھی یہی رائے تھی جو صحابہ کی تھی۔ اگر آپ کو بھی یہی خیال ہوتا تو فرمادیتے کہ پہلے میں بھی یہی سمجھا تھا۔ واﷲ اعلی!
قولہ… امام احمد اور ترمذی اور ابن ماجہ اور حاکم نے حضرت عائشہؓ سے روایت کی ہے۔ مشکوٰۃ شریف میں موجود ہے کہ جناب رسول اﷲﷺ نے حضرت عثمانؓ سے فرمایا کہ بے شک اﷲ تمہیں ایک قمیص پہنائے گا پھر اگر منافقین چاہیں کہ وہ قمیص تم اتار دو تو تم مت اتاریو۔