اور چھان بین نہیں کیا کرتے تھے۔ بلکہ اوّل بخطاب سائل حل وقعت دریافت کر کے جواب دیتے تھے۔ پس جب کہ امور احکامیہ کا یہ حال تھا تو پیشین گوئیوں مستقبلہ کی کرید کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ بجز اس کے کہ ان کے الفاظ ظاہرہ پر ایمان لایا جاوے۔
اقول… میں کہتا ہوں کہ مسلک سلف صالح کا یہی تھا کہ کسی نص شرعیہ میں تاویل بجا کر کے اپنی ہوا وخواہش کے منافق نہ بناتے تھے۔ بلکہ جس بات کو محاورہ کے موافق کلام شارع سے پاتے تھے اس کے موافق عمل درآمد کرتے تھے۔ جب نصوص عملیہ میں یہ حال تھا تو جو نصوص عقائد کے ساتھ متعلق ہیں اور جن پر مدار دین کا ہے۔ ان میں تحریف کرنے کی ان کو کیا ضرورت تھی اور کیوں تحریف کر کے ملحد بنتے۔ بجز اس کے کہ الفاظ ومعانی ظاہرہ جو ان سے مستفید ہوتے ہیں۔ ان پر ایمان لاویں۔ ’’ومن اضل ممن اتبع ہواہ بغیر ہدی من اﷲ‘‘
قولہ… ایضاً فرمایا اﷲتعالیٰ نے ’’لقد صدق اﷲ رسولہ الرؤیا بالحق ﷲ لتدخلن المسجد الحرام ان شاء اﷲ‘‘ اس آیت کی شان نزول میں لکھا ہے کہ جناب رسول اﷲﷺ نے خواب میں دیکھا کہ ساتھ اصحاب کے آپﷺ مکہ کو تشریف لے گئے اور وہاں بفراغ خاطر عمرہ کیا۔ حاصل کلام یہ ہے کہ اس پیشین گوئی کی تعیین وقت میں صحابہ کرامؓ سے بھی خطا واقع ہوئی اور آنحضرتﷺ کی رائے عالی بھی اولا صحابہ کرامؓ کے ہی موافق رہی۔ لیکن اصل حال یہ تھا کہ خواب بے شک سچا تھا۔ لیکن اس میں کچھ اسی سال کی تعیین نہ تھی۔
اقول… بعون اﷲتعالیٰ آپ نے جو اس شاہد کو اس واسطے پیش کیا کہ قبل وقوع کے پیشین گوئی کی حقیقت نہیں معلوم ہوتی تو حقیقت نہ معلوم ہونے سے اگر آپ کی یہ غرض ہے کہ وقت وقوع معین طور پر نہیں معلوم ہوتا تو سلمنا اگر شارع ومخبر کی جانب سے تعیین وقت نہ ہوتی تو وقت معین کیونکر معلوم ہوسکتا ہے تو یہ مطلب آپ کے کچھ مفید نہیں۔ کیونکہ یہ قاعدہ آپ نے اس قائل کے جواب میں بیان کیا۔ جس کا اعتراض کہ وقت معین معلوم ہوگیا۔ نزول ابن مریم کا معنی نہ معلوم ہونے میں ہے نہ تعین وقت میں ونیز آپ کے مقصد اصلی کو بھی مفید نہیں۔ اگر قیاس کرتے ہو معنی نہ معلوم ہونے کو وقت نہ معلوم ہونے پر تو یہ قیاس مع الفارق ہے۔ کیونکہ وقت نہ معلوم ہونے کی وجہ تو یہ ہے کہ مخبر صادق نے کوئی وقت معین نہیں کیا۔ بخلاف معنی کے جب الفاظ صریح المعنی قطعی الدلالۃ بتادئیے تو پھر معنی میں کیا شک رہا اور اگر حقیقت نہ معلوم ہونے سے یہ غرض ہے کہ معنی اصلی معلوم نہیں ہوتے تو اس پیشین گوئی کو اس مطلب سے کچھ تعلق نہیں۔ کیونکہ یہ کہاں سے معلوم ہوا کہ وہ لوگ نفس معنی پیشین گوئی کو نہ جانتے تھے۔ بلکہ یہ پیشین گوئی تمہارے اس قاعدہ کو توڑتی ہے دو وجہ سے۔