قالوا بل یداہ مبسوطتان ینفق کیف یشائ‘‘ ابن عباسؓ سے مروی ہے۔ ’’مغلولۃ ای بخیلۃ‘‘ اور انہوں نے شان نزول بھی اس آیت کا یہی کہا کہ یہود نے کہا تھا کہ اﷲ بخیل ہے۔ خرچ نہیں کر سکتا۔ چنانچہ اپنے موقع میں مبیّن ہے اور فرمایا۔ ’’ولا تجعل یدک مغلولۃ الیٰ عنقک ولا یبسطہا کل البسط‘‘ تو جناب رسول اﷲﷺ نے اسی معنی مشہور کے اعتبار سے فرمایا اور ازواج کا خیال دوسری طرف گیا۔ چونکہ یہ بات احکام تکلیفہ میں سے نہ تھی اور اس کے عدم علم سے کوئی موجب فساد دینی کا نہ تھا۔ بلکہ ایسے امور سے کہ جن کے اظہار کو اﷲ جل شانہ نے مناسب نہ سمجھا اور اس کی تفصیلی کیفیت سے کسی کو مطلع نہ فرمایا۔ لہٰذا رسول اﷲﷺ نے بھی ایسے مجمل لفظ کے ساتھ فرمایا کہ وہ بات مبہم ہی رہے ۔
اور زین بن منیر نے یوں کہا۔ ’’لما کان السوال عن آجال مقدرۃ لا تتعلم الا بالوحی اجابہن بلفظ غیر صریح واحالہمن علی مالا یتبین الابآخرہ وساغ ذلک لکونہ لیس من الاحکام التکلیفۃ انتہی من فتح الباری شرح البخاری‘‘ پھر بھی لحاظ اس میں اس بات کا رکھا کہ ایسے لفظ کے ساتھ بولے کہ جو معنی مقصود میں مشہور بھی ہیں نہ یہ کہ ایسی بے تکی بولیں جس سے کلام فہم عقلاء سے خارج ہو جاوے۔ جیسا کہ صاحب رسالہ اور ان کے پیر نے اس پیشین گوئی نزول ابن مریم کو سیکڑوں الفاظ حدیثہ میں مجاز ناجائز بنا کر اور تاویل باطل کردیا اور ان تنصیصات کو جن کو شارع نے عقائد اور معظم امور اور ایک بڑی دین کی بات جان کر طرح طرح سے تشریح اور صاف صاف علامات کے ساتھ تصریح کر کے فرمادیا تھا۔ ان کو بے جا تاویلیں اور فاسد مجازین بنابنا کر کلام عقلاء وخطاب بلغاء سے خارج کر دیا۔ پس اس پیشین گوئی کو تمہارے مدعا اصلی سے کیا نسبت ہے۔ انتہاء درجہ یہ ہے (موافق رائے بعض علماء کے جس میں ابھی ہم کو کلام باقی ہے) کہ مجاز کا ایسی جگہ استعمال بلا قرینہ درست ہے۔ جہاں موجب خرابی کا نہ ہو۔ ’’قال فی الفتح وفیہ جواز اطلاق لفظ المشترک بین الحقیقۃ والمجاز بغیر قرینۃ وھو لفظ اطولکن اذا لم یکن محذور‘‘ اور موضع متنازع فیہ میں جو کچھ محذور ہے اہل علم پر مخفی نہیں اور کہیں کہیں یہ عاجز بھی تصریح کرتا جاتا ہے تو واضح ہوگیا کہ فرمانا جامع علوم، حاوی فنون، ناصر دین منیر جناب مولوی محمد بشیر صاحب مدظلہ کا صحیح ہے۔ مگر صاحب رسالہ کے مطلب کو بالکل مفید نہیں اور صاحب رسالہ کا ان کے اس قول کو اس جگہ ذکر کرنا عوام کو دھوکا دہی سے خالی نہیں۔ واﷲ اعلم!
قولہ… میں کہاتا ہوں۔ مسلک سلف صالح کا یہی تھا کہ قبل وقوع واقعہ کے کسی مسئلہ میں تدقیق