حقیقت کے ہیں۔ کیوں نہ مطلع فرما دیتے اور اپنی مراد سے کہ جس کا بغیر اطلاع سمجھنا موافق قواعد کے متعذر ہے۔ مفصل خبر دے دیتے۔ پس اس سے ثابت ہوا کہ اس پیشین گوئی نزول میں مجاز مراد نہیں۔ اس سے تو خلاف تمہارے مطلوب کے ثابت ہوا نہ موافق۔
دوسرے یہ کہ غلام کا استعمال ’’جوان‘‘ کے معنی میں کلام عرب میں بہت شائع وجاری ہے۔ ’’قال فی مصباح المنیر وسمعتہم یقولون للکہل غلام وہو فاش فی کلامہم‘‘ تم اپنی مجازات میں جو ہزاروں الفاظ حدیثیہ میں تحریف کرتے ہو ثابت کرو۔ شیوع ان کے استعمال کا ان باطل معنی میں۔
تیسرے یہ کہ ہم کہتے ہیں کہ غلمہ اپنے حقیقی معنی میں مستعمل ہے۔ مراد غلمہ سے اولاد ہیں۔ امراء وقت کے، دیکھو فتح الباری میں ہے۔ ’’الا ان یکون المراد بالاغیلمۃ اولاد بعض من استخلف فوقع الفساد بسببہم فنسب الیہم‘‘ یہ ترجمہ باب کے شرح میں لکھا ہے اور آگے لفظ حدیث بخاری کی شرح میں لکھتے ہیں۔ ’’قولہ فاذا رایتہم غلمانا… الخ! ہذا یقوی الاحتمال الماضی وان المراد اولاد من استخلف منہم‘‘ یعنی یہ لفظ روایت ’’اذا رآہم غلمانا‘‘ پچھلے احتمال کو قوی کرتے ہیں اور یہ کہ مراد غلمہ سے ان خلفاء کی اولاد ہے۔ تو اب پیشین گوئی اپنے معنی حقیقی ہی میں رہی اور لفظ غلمہ اپنے معنی اصلی میں مستعمل ہوا پھر تمہارا مطلب کدھر گیا۔ امت کے معنی متعارف بیان نہیں کئے گئے۔ نہ معلوم وہ کیا سمجھ بیٹھے ہیں۔ جس سے یہ گمراہی کا دروازہ کھولنا چاہا ہے۔ مگر یہ معلوم ہوتا ہے کہ خود بھی اس میں متردد تھے۔ لہٰذا زبان پر نہیں لائے۔ مگر اپنا پیشہ چھوڑا نہیں جاتا۔ واﷲ اعلم!
قولہ… ’’عن عائشۃؓ ان بعض ازواج النبیﷺ قلن للنبیﷺ اینا اسرع بک لحوقا قال اطولکن یدا فاخذوا قصبۃ یذر عونہا وکانت سودۃ اطولہن یدا فعلمنا بعدا انما کان طول یدہا الصدقۃ وکانت اسرعنا لحوقا بہ زینب وکانت تحب الصدقہ متفق علیہ ولفظہ للبخاری‘‘ مولوی محمد بشیر صاحب نے مجھ سے یہ حدیث بیان کر کے کہا کہ دیکھو اس پیشین گوئی کی تاویل قبل وقوع اصحابہ کو معلوم نہ ہوئی۔
اقول… سلمنا کہ اس پیشین گوئی کی تاویل قبل وقوع کے ازواج کو معلوم نہ ہوئی۔ مگر طویل الید سخی کے معنی میں بھی مشہور ہے۔ دیکھو امام نووی لکھتے ہیں۔’’قال اہل اللغۃ یقال فلان طویل الید والباع اذا کان سمحاً جوادا وضدہ قصیر الیدوالباع‘‘ اسی کے مثل ہے جو اﷲ جل شانہ نے فرمایا۔ ’’وقالت الیہود ید اﷲ مغلولۃ غلت ایدیہم ولعنوا بما