شخص معنی غلمہ میں قریش کی حقیقی مراد لے اور لفظ امت سے جو معنی متعارف وہ مراد لئے جاویں تو اس کے نزدیک یہ پیشین گوئی اب تک واقع نہیں ہوئی۔
اقول… واضح رہے کہ صاحب رسالہ نے ان شواہد کو دو غرض سے بیان کیا۔ جیسا کہ اوپر ظاہر ہوا تو غرض اوّل (یعنی قبل وقوع کے حقیقت پیشین گوئی کی معلوم نہیں ہوتی) اس روایت سے ذرا بھی ثابت نہیں ہوتی۔ بلکہ اس کا خلاف ثابت ہوتا ہے۔ کیونکہ اس سے یہ کہاں معلوم ہوا کہ اصحاب کو قبل وقوع کے اس کی حقیقت معلوم نہ تھی۔ بلکہ دیکھو ابوہریرہؓ کہتے ہیں۔ جو صحیح بخاری میں اسی روایت کے ساتھ موجود ہے۔ ’’فقال ابوہریرۃؓ لوشئت ان اقول بنی فلاں وبنی فلاں لفعلت‘‘ یعنی ابوہریرہؓ بعد بیان اس حدیث کے کہتے تھے کہ اگر میں چاہوں تو بتادوں وہ فلانے اور فلانے کی اولاد ہیں اور ابن ابی شیبہ میں ہے۔ ’’ان اباہریرۃؓ کان یمشیٔ فی السوق ویقول اللہم لاتدرکنی سنۃ ستین ولاامارۃ الصبیان‘‘ یعنی ابوہریرہؓ بازار میں چلتے ہوئے کہتے تھے اے اﷲ میں سنہ ساٹھ تک نہ پہنچوں اور نہ لڑکوں کی امارت تک۔ ’’قال الحافظ ابن حجر وفی ہذا اشارۃ الیٰ ان اوّل الاغلیمۃ کان فی سنۃ ستین وہو کذالک فان یزید بن معاویۃ استخلف فیہا‘‘ ان اقوال ابوہریرہؓ سے یہ بات کھل گئی کہ حقیقت پییشن گوئی کی ابوہریرہؓ کو پہلے سے معلوم تھی اور وہ اس کے مصداق ومعنی سے قبل وقوع خوب واقف تھے۔ پس اس سے ہرگز یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ قبل وقوع حقیقت پیشین گوئی کی معلوم نہیں ہوسکتی۔ بلکہ اس کے خلاف ثابت ہوا کہ دیکھو قبل وقوع کے خوب معلوم تھی اور اس کی ماہیئت سے پورے پورے طور پر واقف تھے۔ ثبوت غرض اوّل کا تو معلوم ہوا۔ اب غرض ثانی کا حال سنو۔ (یعنی اس پیشین گوئی میں مجاز ہونے سے نزول ابن مریم مجاز مانا جاوے) اقوال ابوہریرہؓ سے یہ بات معلوم ہوئی کہ جناب نبی کریمﷺ نے بالتصریح ان کو حقیقت پیشین گوئی پر مطلع فرمادیا تھا۔ ورنہ وہ عالم الغیب تو تھے نہیں یہ بات کیسی کہتے کہ میں ہر ایک کا نام لے کر بتا سکتا ہوں۔ مگر ابوہریرہؓ نے مصلحت سے کلمہ مجمل کے ساتھ روایت کی۔ اب آپ بتائیے کب رسول اﷲﷺ نے فرمایادیا کہ یہ جو ساری علامات اور تشریحات نزول عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کے بیان کی گئی ہیں۔ ان سے یہ ظاہری معنی مراد ن ہیں۔ بلکہ مطلب دوسرا ہی ہے۔ پس یہ کیسا قیاس مع الفارق کرتے ہو۔ حاصل یہ کہ نبی صاحب نے مجاز غلام کے ساتھ تحقیر کے واسطے بولی۔ چونکہ اس میں ابہام دیکھا تو اپنی مراد سے مطلع فرمادیا۔ اس پیشین گوئی نزول عیسیٰ بن مریم میں اگر مجاز مراد ہوتی تو یہاں پر کہ اس سے زائد ابہام ہے۔ درصورت ارادہ مجاز کے کہ سب قرائن مقتضی