کافی ہے اور سمجھدار پر خوب ظاہر ہوگیا کہ منشاء ومبنی جو صاحب رسالہ کا تھا وہ باطل ہوگیا۔ اب چنداں ضرورت جواب شواہد کی نہ تھی۔ مگر اتماماً للحجۃ اور ایضاحاً للحق ہر ایک کوعلیحدہ بیان کر کے جواب دیتا ہوں تو واضح رہے کہ غرض صاحب رسالہ کی ان شواہد کے بیان کرنے سے دو ہیں۔
ایک یہ کہ یہ قاعدہ ثابت ہو جاوے کہ پیشین گوئی کی حقیقت اور پوری پوری ماہیئت قبل وقوع کے علوم ظاہر سے نہیں معلوم ہو سکتی۔
دوسرے یہ کہ اصل مدعی ہر شخص منصف کے سمجھ میں آجاوے یعنی یہ بات معلوم ہو جاوے کہ اس پیشین گوئی، نزول ابن مریم میں معنی حقیقی مراد نہیں۔ یہ دونوں باتیں ان کی عبارت سے ظاہر ہیں۔ مگر بسبب اجمال کے تفصیل کی ضرورت پڑی ونیز یاد رہے کہ ان ہی دو پر جواب شواہد میں بحث کی جاوے گی۔
قولہ… انجاج الحاجہ شرح ابن ماجہ میں لکھا ہے کہ ’’ان عثمان لما جمع المصاحف روی لہ ابوہریرۃ انہ سمع النبیﷺ یقول ان اشد امتی حبالی قوم یأتون من بعدی یؤمنون بی ولم یرونی یعملون بمافی الورق قال ابوہریرۃ فقلت ای ورق حتی رأیت المصاحف ففرح بذلک عثمان واجازا باہریرۃ بعشرۃ الاف درہم وقال انک لتحفظ علینا حدیث نبینا‘‘ دیکھو حضرت ابوہریرہؓ کو حقیقت اور ماہیئت ورق معلوم نہ ہوئی۔
اقول… یہ روایت انجاح الحاجہ شرح ابن ماجہ میں نہیں۔ اگر صاحب رسالہ (احسن قادیانی) انحاج الحاجہ میں نکال دیں ابھی ہم ان کی علمیت کے قائل ہو جاویں۔ بلکہ یہ روایت مصباح الزجاجہ حاشیہ ابن ماجہ میں بیان نزول عیسیٰ علیہ السلام میں ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ صاحب رسالہ رموز حواشی کی تمیز نہیں رکھتے۔ بھلا یہ رطب ویابس روایتیں مطلب کو کیونکر مفید ہو سکتی ہیں۔ اوّل قابل احتجاج ہونا روایت کا بیان کرئے پیچھے اس سے نتیجہ نکالتے۔ نتیجہ فرع ہے۔ روایت کا جب روایت کا ثبوت نہیں تو نتیجہ کا کیا ذکر صاحب مصباح الزجاجہ نے نہ مخرج روایت کا بیان کیا نہ خود سند بیان کی۔ پھر بے سندبات کیونکر قبول ہوسکتی ہے۔ ابھی ہم کو صحت روایت مسلّم نہیں تو دوسرے جواب کی کیا ضرورت۔ جب وہ روایت کا ثبوت دیں گے اس وقت ہم بھی جواب اس کا دیں گے۔
قولہ… ’’عن ابی ہریرۃؓ قال قال رسول اﷲﷺ ہلکۃ امتی علی یدی غلمۃ من قریش رواہ البخاری‘‘ باتفاق شارحین حدیث یہ پیشین گوئی واقع ہو چکی۔ مراد امت سے صحابہ اور اہل بیت ہیں اور مراد غلمہ قریش سے یزید اور عبداﷲ بن زیاد وغیرہما ہیں۔ اب جو