سے معلوم نہیں ہوسکتی۔ البتہ ان پر ایمان لانا جیسا کہ ان کے الفاظ اور معانی ظاہرہ سے مفہوم ہوتا ہے۔ ضروری ہے اس کی چند نظیریں بطور شواہد کے میں پیش کرتا ہوں۔ تاکہ اصل مدعیٰ ہر شخص منصف کے سمجھ میں آجاوے اور اس مقدمہ کا ثبوت بھی اس سے ہو جاوے۔
اقول… ’’بعون اﷲ تعالیٰ‘‘ صاحب رسالہ نے جو قائل کا جواب دیا اس کا حاصل یہ ہے کہ نزول ابن مریم کا ان امور مستقبلہ سے ہے کہ جن کی خبر مخبر صادق نے دی ہے اور جتنے امور مستقبلہ کی خبر مخبر صادق نے دی ان کی حقیقت اور پوری پوری ماہیئت جب تک کہ وہ واقع نہ ہو لیں صرف علوم ظاہر سے نہیں معلوم ہو سکتی۔ پس نزول ابن مریم کی حقیقت اور پوری پوری ماہیئت جب تک کہ واقع نہ ہو لے صرف علوم ظاہر سے معلوم نہیں ہوسکتی تو واضح رہے کہ اس کلام میں کئی وجوہ سے فساد ہے۔ اوّل یہ کہ کبریٰ قیاس مسلم نہیں۔ مطالب بالبرہان ہے۔ یعنی اس بات کا دعویٰ کہ جتنے امور مستقبلہ کی خبر مخبر صادق نے دی ہے۔ ان کی حقیقت بغیر وقوع کے علوم ظاہر سے معلوم نہیں ہوسکتے۔ بغیر دلیل مسلم نہیں اس کی دلیل۔ بیان کرنا چاہئے اور جو شواہد بیان کئے تو اوّل تو وہ تمہارے مدعا کے موافق نہیں یا خود ان کے ثبوت میں کلام ہے۔ چنانچہ آگے انشاء اﷲ ظاہر ہو جاوے گا۔ دوسرے یہ کہ بعض افراد پر حکم سے کل افراد پر وہ حکم لازم نہیں آتا۔ کما لا یخفی کہ تمہارا یہ کلیہّ ٹھیک ہو جاوے۔ لہٰذا قیاس منتج نہ ہوگا۔ پس آپ کا مدعا بھی ثابت نہ ہوگا۔
دوسری وجہ فساد کی یہ ہے کہ حقیقت اور پوری پوری ماہیئت معلوم نہ ہونے سے دو حال سے خالی نہیں۔ یا یہ غرض ہے کہ طریق وقوع کا علم حاصل نہیں ہوتا کہ جس طرح ظاہر الفاظ خبر کے مقتضی ہیں۔ اسی طرح واقع ہوگی یا دوسری طرح کہ قول مخبر ماؤل ہو یا یہ غرض ہے کہ اس کا علم تو ہو جاتا ہے۔ مگر اس کی صورت کماہی اور پوری پوری حالت بعینہا جو ظہور میں آوے گی بتما مہا معلوم نہیں ہوتی۔ شق ثانی مسلم ہے کہ جہاں تک خبر نہیں دی گئی اس کی صورت تفصیلی کا حال کیونکر قبل وقوع معلوم ہو جاوے۔ مگر اس کی خصوصیت اخبار مستقبلہ کے ساتھ کیا ہے۔ بلکہ جو اخبار ماضیہ یا موجودہ غیر مشاہد ہیں وہ بھی ایسے ہیں۔ دوسرے یہ بات تمہارے مدعا اصلی کو بالکل مفید نہیں۔ کیونکہ اس کے تو اس قدر نکلتا ہے کہ نزول حضرت عیسیٰ روح اﷲ نبی اﷲ ابن مریم کی صورت کما ہی تفصیلی اور حالت بعینہا معلوم نہیں۔ جب تک کہ وقوع میں نہ آوے اور نزول ان کا بذات خود یقینی ہے نہ یہ کہ ان کے ذاتی نزول میں شک ہے اور درصورت شق اوّل یہ قاعدہ مسلم نہیں۔ کیونکہ جہاں پر الفاظ اخبار مستقبلہ کی باعتبار قواعد عربیہ کے متحمل کئی معانی کے ہیں۔ مثلاً کئی معنی کو مشترک ہیں اور کوئی قرینہ قوی مرجحہ نہیں یا کوئی مجاز اس لفظ میں ایسی مشہور ہو کہ قریب حقیقت کے ہو مثلاً طویل