حلم سے جو آہستگی اور بردباری کے معنی میں ہے۔ اس کا جواب مرزاقادیانی نے کچھ نہیں دیا۔
اب میں یہ کہتا ہوں کہ حافظ نے فتح الباری میں لکھا ہے: ’’وقد قال ابوجعفر النحاسن ان ہذا لایعرف فی اللغۃ وانما الکہل عندہم من ناہزالاربعین او قاربہا وقیل من جاوز الثلثین وقیل ابن ثلث وثلثین انتہی۔ والذین یظہر ان مجاہد افسرہ بلازمہ الغالب لان الکہل یکون غالباً فیہ وقار وسکینۃ انہتی‘‘
قسطلانی لکھتا ہے: ’’فلعل مجاہد افسرہ بلازمہ الغالب لان الکہل غالباً یکون فیہ وقار وسکینۃ انتہی‘‘
قاموس میں ہے۔ ’’الکہل من وحظ الشیب وأیت لہ بجالۃ اومن جاوز الثلثین اواربعاوثلثین الیٰ احدی وخمسین انتہی‘‘
کشاف میں ہے: ’’ومعناہ ان یکلم الناس فی ہاتین الحالین کلام الانبیاء من غیر تفاوت بین حال الطفولۃ وحال الکہولۃ التی یستحکم فیہا العقل ویستنباء فیہا الانبیاء انتہٰی‘‘
ان عبارات سے صاف ظاہر ہے کہ کہل کے معنی جوان مضبوط کے نہ صحیح بخاری میں ہیں اور نہ قاموس میں نہ کشاف میں اور کہل کے معنی جوان کے۔ کیونکر ہوسکتے ہیں۔ حالانکہ شباب اور کہولۃ میں تضاد ہی مصباح المنیر میں ہے۔ ’’شب الصبی یشب من باب ضرب شباباً شبیبۃ وہو شاب وذلک قبل سن الکہولۃ‘‘ اور ہر عاقل جانتا ہے کہ اجتماع الضدین محال ہے۔
چھٹی دلیل سورہ زخرف کی یہ آیت ہے۔ ’’وانہ لعلم للساعۃ فلاتمترن بہا واتبعون ہذا صراط مستقیم‘‘
ترجمہ شاہ ولی اﷲ صاحبؒ: ’’وہر آئینہ عیسیٰ نشانہ است قیامت راپس شہبہ مکینددرقیامت وبگویا محمد پیروی من کنید این ست راہ است۔‘‘
ترجمہ شاہ رفیع الدین صاحبؒ: ’’اور تحقیق وہ البتہ علامت قیامت کی ہے۔ پس مت شک کرو ساتھ اس کے اور پیروی کرو میری یہ ہے راہ سیدھی۔‘‘
ترجمہ شاہ عبدالقادر صاحبؒ: ’’اور وہ نشان ہے اس گھڑی کا سو اس میں دھوکا نہ کرو اور میرا کہا مانو۔ یہ ایک سیدھی راہ ہے۔ فائدہ حضرت عیسیٰ کا آنا نشان ہی قیامت کا۔ انتہی!‘‘