اس وقت ابن اپنی استعمال حقیقی ہی پر رہے گا نہ مجازی پر۔ جس کے لئے تم نے اپنی اس قدر علمیت صرف کی۔
دوسرے! یہ کہ ابن کا جو استعمال استعارۃً ہوتا ہے تو اس طرح پر ہوا ہے کہ ابن کے مصداق کو اس کے مضاف الیہ کے ساتھ ایک مناسبت ہوتی ہے کہ جس کے سبب سے ابن فلان بول دیتے ہیں۔ مثلاً ابن السبیل کہ ابن کے مصداق یعنی مسافر کو اس کے مضاف الیہ یعنی سبیل کے ساتھ ایک مناسبت ہے۔ ایسی ہی ابن اللیل میں چاند کو رات کے ساتھ مناسبت ہے۔ جس کے سبب سے ابن السبیل وابن اللیل بول دیتے ہیں اور صاحب رسالہ نے جو وجہ مناسبت بیان کی یعنی (اگر مرزاقادیانی نے بطور استعارہ لطیفہ کے ابن مریم سے ایسا شخص مراد لیا ہو جو بلاواسطہ آیا) تو یہ وجہ مناسبت کی بقول ان کے، ساتھ ابن مریم کے ہے۔ نہ مصداق ابن کے ساتھ مریم کے۔ کما لا یخفی فتفکر فان فیہ مافیہ!
بہرصورت تمہارا مطلب فاسد بغیر حذف کے ثابت نہیں ہوا اور بغیر وجہ محذوف وغیرہ ماننا کس قدر نصوص شرعیہ کی تحریف ہے۔ اﷲ قہار وجبار سے ڈرو۔ اگر ایسے ہی جہاں چاہیں حذف مان لیا کریں تو ہر گز کسی نص سے کوئی مسئلہ شرعیہ ثابت نہ ہوسکے گا۔ حتیٰ کہ توحید باری عزاسمہ اور رسالت رسول اﷲﷺ کی بھی جو نصوص کہ دبارۂ نزول حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے وارد ہیں۔ ان سے اور اس مرزا سے بالکل مناسبت نہیں اور سرموے موافقت نہیں۔ بڑی بے حیائی کی بات ہے۔ ان کا اپنے آپ کو مصداق کہنا۔ اذا لم تستجی فاصنع ماشئت!
اگر کوئی دوسرا دعویٰ کر بیٹھے تو شاید کچھ چل بھی جاتا۔ ایسی کھلی بات کے چھوٹے مصداق بنے۔ ہر چند کہ احصار ان احادیث کا جو دربارۂ نزول مسیح علیہ السلام ودجال کے وارد ہیں۔ محال عادی ہے۔ مگر میں یہاں پر چند احادیث واسطے افادۂ عوام کے مع حاصل ترجمہ کے لکھتا ہوں۔
حدیث اوّل
’’اخرج البخاری ومسلم وابوداؤد والترمذی عن ابی ہریرۃ قال قال رسول اﷲﷺ والذی نفسی بیدہ لیوشکن ان ینزل فیکم ابن مریم حکما مقسطا فیکسر الصلیب ویقتل الخنزیر ویضع الجزیۃ ویفیض المال حتیٰ لا یقبلہ احد حتیٰ تکون السجدۃ الواحدہ خیر امن الدنیا ومافیہا ثم یقول ابوہریرۃ اقروأ ان شئتم وان من اہل الکتاب الالیؤمنن بہ قبل موتہ‘‘ بخاری اور مسلم اور ابوداؤد اور ترمذی نے ابوہریرہؓ سے روایت کی ہے کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا کہ