اقول… چونکہ صاحب رسالہ نے ان تینوں شاہدوں سے وجہ استدلال کو بیان نہیں کیا۔ لہٰذا ہم بھی بیان جواب سے اعراض کرتے ہیں۔ اگر انہوں نے ظہور کے سبب چھوڑ دیا تو ہم بھی جواب ظاہر سمجھ کے چھوڑتے ہیں۔
قولہ… اگر مرزاقادیانی نے نزول کے معنی میں بموجب محاورۂ کتاب وسنت کے یہ کہا کہ نزول سے مراد نزول من السماء بوجود عنصری نہیں تو کیا اور کیا الحاد ہے۔ بینوا توجروا!
اقول… مرزاقادیانی بنصوص شرعیہ کو اپنے معنی سے خلاف لغت وقواعد جمیع اہل عربیۃ کے تحریف کر کے مصداق ’’یحرفون الکلم عن مواضعہ‘‘ کے ہو گئے اور فرمایا ’’ان الذین یلحدون فی ایاتنا لا یخفون علینا افمن یلقیٰ فی النار خیر ام من یأتی امناً یوم القیامۃ‘‘
قولہ… اور لفظ ابن مریم کی نسبت یہ عرض ہے کہ قرآن مجید میں متعدد جگہ مسافر کو ابن السبیل بطور استعارہ کے فرمایا ہے۔ اب دریافت کیا جاتا ہے کہ آیا مسافر راہ کا بیٹا ہوتا ہے۔ حقیقتاً یا چاند کو عرب میں ابن اللیل کہتے ہیں۔ کیا چاند رات کا بیٹا حقیقی ہوتا ہے۔
اگر کنیت بلفظ ابن کتب حدیث وغیرہ میں تفحص کی جاوے تو بہت کثرت سے ایسی نکلے گی جو صرف بطور استعارہ کے کسی مناسبت کی وجہ سے وہاں ابن کا لفظ لگادیا ہوگا کہ نہ یہ کہ بیٹا حقیقی وہاں مراد ہو۔ اگر مرزاقادیانی نے بطور استعارہ لطیفہ کے ابن مریم سے ایسا شخص مراد لیا جو بلاواسطہ آباء ومشائخ زمان کے اس کو علوم لدنیہ حاصل ہوئے ہوں اور بغیر داخل ہونے کے کسی سلسلہ میں سلاسل اولیاء اﷲ ماسبق سے اس کو کشوف والہامات ومعارف کتاب وسنت منجانب اﷲ اس کو دئیے گئے ہوں تو کون سا استحالہ لازم آیا۔
اقول… وباﷲ التوفیق! لفظ ابن کا استعارہ بیان کرنے سے اگر آپ کی یہ غرض ہے کہ مرزاپر ابن مریم بغیر حذف ومثل حذف کے مانے ہوئے صادق آجائے تو یہ ہرگز ممکن نہیں۔ کیونکہ اسی خبر کے بعض روایات میں تو لفظ عیسیٰ بن مریم کا وارد ہے۔ جیسا کہ مسلم کی روایت ہے اور بعض میں لفظ مسیح عیسیٰ بن مریم کا آیا ہے۔ چنانچہ احمد کی روایت میں ہے اور بعض میں روح اﷲ عیسیٰ ہے۔ جیسا مستدرک حاکم میں واقع ہے، اور بعض روایات میں لفظ نبی اﷲ کا بھی وارد ہے۔ ’’یفسر بعضہا بعضاً‘‘ پس ان الفاظ کو مرزاقادیانی پر بغیر حذف مانے کیونکر صادق کرسکتے ہو اور اگر تمہاری یہ غرض نہیں کہ بغیر حذف مانے مرزاقادیانی پر صادق آتا ہے۔ بلکہ حذف کرنا پڑے گا۔ پس اس وقت میں یہ استعارہ بیان کرنا بالکل لغو ہے اور بے محل۔ کیونکہ جب حذف مانو گے تو