جاوے گا۔ اگرچہ اس رسالہ مردود علیہ میں نہ موجود ہوتا۔ ناظرین کو فائدہ تامہ حاصل ہو۔ ’’وعلیٰ اﷲ التوکل وبہ الاعتصام‘‘
قولہ… اور دیکھو ’’یا بنی آدم قد انزلنا علیکم لباسا یواری سواتکم وریشا‘‘ کسی نے دیکھا ہے کہ پارچہ اور ملبوسات۔اقول… معنی انزال کے یہاں پر وہی اتارنا جسم کے ساتھ ہیں۔ البتہ مجاز یہاں پر اسناد میں ہے۔ یعنی انزال کی نسبت حقیقی نہیں۔ مسبب کو بجائے سبب کے بول دیا کہ پانی ہے۔ مثلاً معنی یہ ہوے کہ اتارا ہم نے پیدائش لباس کے سببون کو مثلاً پانی ہے کہ بوجودہ العنصری اترتا ہے۔ پس لفظ اپنے معنی اصلی میں مستعمل ہوا۔ لہٰذا اس سے صاحب رسالہ کا استشہاد صحیح نہ ہوا اور اگر فرضاً مانیں بھی تو اسی وجہ سے کہ معنی حقیقی متعذر ہیں اور مستشہدلہ میں متعذر نہیں۔ کمامر۔ پس تب بھی استشہاد صحیح نہیں۔
قولہ… اور فرمایا ’’قد انزلنا الیکم ذکراً رسولاً یتلوا علیکم آیات اﷲ مبینات‘‘ کیا آنحضرتﷺ بوجود عنصری آسمان سے نازل ہوئے تھے۔
اقول… اس آیت سے استشہاد کے واسطے اوّلاً اس بات کا ثابت کرنا ضرور ہے کہ اس سے مراد رسول اﷲ ہیں۔ (ﷺ) ہم کہتے ہیں مراد اس سے جبرائیل ہیں اور نسبت ’’یتلوا‘‘ کی ان کی طرف بلاواسطہ ہے یا بواسطہ محمد رسول اﷲﷺ کے کہ ان کے پڑھنے کو جبرائیل کا پڑھنا کہہ دیا۔ جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا ’’فاذا قراناہ فاتبع قرأنہ‘‘ پس انزال اپنے حقیقی معنی میں مستعمل ہے اور تمہارا استشہاد صحیح نہ ہوا اور قرآن مجید بھی مراد ہوسکتا ہے اور اگر محمد رسول اﷲﷺ کو مراد لیں۔ تب بھی انزال اپنے ہی معنی میں رہے گا۔ انزال کی نسبت ان کی طرف ترشیحا کی گئی۔ پس یہ مجاز نسبت میں ہے نہ لفظ انزال میں۔ فاین المدعی؟ اگر مجاز مانی بھی جاوے تو اس وجہ سے کہ حقیقت متعذر ہے اور شاہدلہ میں متعذر نہیں۔ کمامر۔ ’’فلا تلبسوا الحق بالباطل‘‘
قولہ… اور دیکھو حدیث میں ہے۔ ’’انزل الدواء الذی انزل الدائ‘‘ کسی شفاء خانہ میں یا عطار کی دکان پر کوئی دوا کسی نے دیکھی کہ آسمان سے بوجود عنصری اتری ہو۔
اقول… اس میں بھی وہی وجوہ جواب کے جو پہلے ذکر کئے گئے۔ جاری ہیں کہ ظاہر ہے اعادہ کی ضرورت نہیں۔ بہرحال مقصود صاحب رسالہ کا ثابت نہیں ہوتا۔
قولہ… اور فرمایا ’’انزل الناس منازلہم‘‘ اور آیا ہے کہ ’’لما نزلت ہو قریظۃ‘‘ اور آیا ہے ’’خرج من مکۃ ونزل یثرب‘‘