جنت میں پھر کر عرش کے نیچے قنادیل لٹکتی ہیں۔ اس میں آکر رہتی ہیں اور بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ساتویں آسمان میں جمع ہوتی ہیں اور بعض روایات میں ہے کہ زمین پر جابیہ میں (کہ ملک شام میں واقع) آکر جمع ہوتی ہیں اور بعض میں چاہ زمزم کا بھی آیا ہے۔ وغیرہا!
اور بڑے بڑے ذی شان عالی مراتب نبی جناب رسول اﷲﷺ نے شب معراج میں آسمانوں پر موجود پائے۔ کوئی پہلے آسمان پر کوئی دوسرے پر وقس علیٰ ہذا دیکھو حضرت عیسیٰ علیہ السلام دوسرے آسمان پر موجود تھے اور اگر فرضاً تسلیم بھی کر لیں کہ مرنے کے بعد سے دخول خلدی ہو جاتا ہے تب بھی ہم کہتے ہیں کہ خلود کو اﷲ جل شانہ نے اپنی مشیت پر رکھا ہے۔ چنانچہ فرمایا اور ’’اما الذین سعد واففی الجنۃ خالدین فیہا مادامت السمٰوات والارض الاماشاء ربک‘‘ دیکھو خلود سے اﷲتعالیٰ نے اپنی مشیت کا استثناء کیا ہے اور اپنے چاہنے کی قدر اس وعدہ سے نکال لیا۔ پس ہم کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ کے واسطے اﷲتعالیٰ چاہ چکا ہے اور اس کی مشیت اس بات کے ساتھ متعلق ہوچکی ہے کہ ان کو پھر دنیا میں بھیجے۔ چنانچہ شب معراج میں خود انہوں نے رسول اﷲﷺ سے بیان کیا کہ اﷲتعالیٰ نے اخیر زمانہ میں جب دجال خروج کرے گا۔ مجھ کو دنیا میں اتارنے کا وعدہ دیا ہے۔ (یہ ایک صحیح حدیث کا مضمون ہے۔ جس کا تفصیلی ذکر آگے آتا ہے) پھر بھلا اس میں کیا استبعاد ہے اور کون سا محذور لازم آتا ہے۔ پھر دیکھو جناب رسول اﷲﷺ شب معراج میں جنت کے اندر تشریف لے گئے۔ پھر وہاں سے نکل کر دنیا میں تشریف لے آئے اور دیکھو حضرت آدم علیہ السلام جنت میں داخل ہوئے اور اس میں رہ کر اﷲتعالیٰ کی مشیت سے اتارے گئے تو اگر بمجرد دخول خروج جنت سے ممتنع ہوتا تو یہ کیسے باہر آتے۔ بہرحال کسی صورت سے مطلب صاحب رسالہ اور ان کے ہم خیالوں کا ثابت نہیں ہوتا اور کسی طور سے استحالہ نزول ابن مریم کا بجسدہ العنصری پایۂ ثبوت کو نہیں پہنچتا۔ پھر بلاوجہ کیوں صرف نصوص کا ظاہر سے کیا جاتا ہے اور کس لئے معنی حقیقی چھوڑ کر مجاز کو اختیار کیا جاتا ہے اور تحریف کا دروازہ کیوں کھولا جاتا ہے اور الحاد کے طریقوں کو کیوں رواج دیا جاتا ہے۔ اﷲ جبار وقہار سے ڈرو اور طریق حق کو اختیار کرو۔ ’’افرأیت من اتخذ الٰہہ ہواہ‘‘ اس جگہ اس بیان کو مختصر طور پر لکھ دیا۔ اگر اﷲ جل شانہ نے توفیق دی تو انشاء اﷲ کسی تحریر میں اس کی تفصیل کی جاوے گی۔ مگر چونکہ ان لوگوں کا اس دلیل پر بڑا مدار تھا۔ اس واسطے اس جگہ اس کا جواب لکھنا ضروری سمجھا۔
اسی طرح اور بھی ان کے دلائل کا جن پر فخر کرتے ہیں اور ان کو اپنے براہین قویہ سے سمجھ کر بیشمار جگہ اپنی تحریرات میں لاتے ہیں۔ موقع موقع پر اس رسالہ میں جواب ماصواب لکھا