یقول دخلت البلد‘‘ تو یہ دو حال سے خالی نہیں یا یہ کہ پہلے کبھی دخول ہوا ہی نہ ہو، یا ہوا ہو۔ مگر پھر خروج ہو اور درصورت اوّل مقدمۂ ثانی باطل ہوگیا اور درصورت دوم مقدمۂ ثالث باطل ہوگیا۔ وہذا ہوا لمطلوب! وجہ ثانی! یہ کہ میدان حشر میں سب انبیائ، صلحاء حاضر ہوں گے۔ حضرت آدم اور ابراہیم وموسیٰ اور عیسیٰ علیہم السلام سب موجود ہوں گے۔ چنانچہ بخاری اور مسلم کی طویل حدیث باب شفاعت میں بتصریح مذکور ہے اور فرمایا اﷲتعالیٰ نے ’’وجیئی بالنبیین والشہداء وقضے بینہم بالحق وہم لا یظلمون‘‘ اور فرمایا ’’یومئذ تعرضون لا تخفیٰ منکم خافیہ‘‘ اگر دخول ان کا جنت میں ہوچکا ہے تو پھر کیوں نکالے جاویں گے۔ اگر نکالے گئے تو بطلان مقدمۂ ثالث کا لازم آیا۔ وجہ ثالث! یہ کہ اگر موت کے بعد ہی سے دخول جنت ہو جائے تو لازم آوے گا۔ قیامت میں خروج جنت سے اور خروج جنت سے ممتنع ہے۔ ’’لقولہ تعالیٰ وماہم منہا بمخرجین‘‘ اور مستلزم ممتنع کا ممتنع ہے۔ پس دخول جنت موت کے بعد ہی ممتنع ہے۔ لہٰذا مقدمۂ ثانی باطل ہوگیا۔
وجہ رابع! یہ کہ سرور کائنات جناب حضرت محمد مصطفیٰﷺ نے فرمایا۔ ’’اوّل من یقرع باب الجنۃ انا۔ اخرجہ مسلم‘‘ اور فرمایا ’’اتی باب الجنۃ یوم القیامۃ فاستفتح فیقول الخازن من انت فاقول محمد فیقول بک امرت لا افتح لاحد قبلک اخرجہ مسلم‘‘ یعنی سب سے پہلے جو دروازہ جنت کا ٹھوکے گا وہ میں ہی ہوں۔ قیامت کے دن جنت کے دروازہ پر آکر دروازہ کھلواؤں گا تو اس کا داروغہ کہے گا تم کون ہو تو میں کہوں گا محمد تو وہ کہے گا آپﷺ ہی واسطے مجھ کو حکم ہوا ہے کہ آپﷺ سے پہلے کسی کے لئے نہ کھولوں۔ اس سے معلوم ہوا کہ اس سے پہلے کسی کے واسطے دخول جنت نہیں۔ پس مقدمۂ ثانی بطل ہوگیا۔ وجہ خامس! یہ کہ شب معراج میں حضرت محمد مصطفیﷺ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے دوسرے آسمان پر ملے اور کلام کیا۔ چنانچہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں بتصریح موجود ہے اور عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے نزول کا بھی ذکر کیا۔ چنانچہ احمد اور ابن ماجہ کی صحیح روایت میں ہے۔ (جس کا ذکر آگے آتا ہے) پھر رسول اﷲﷺ تیسرے آسمان پر گئے۔ پھرچوتھے آسمان پر ایسے ہی پانچویں، چھٹے، ساتویں پر۔ پھر سدرۃ المنتہیٰ جاکر جنت میں داخل ہوئے۔ چنانچہ صحیحین ودیگر کتب حدیث میں موجود ہے۔ دیکھو حضرت عیسیٰ جنت میں نہ تھے بلکہ باہر تھے۔ وہذا ہوالمطلوب!