والکلبتان والمیقعۃ‘‘ یعنی المطراقۃ ایسا ہی جامع البیان اور روجیز میں ہے۔ پس تمہارا اشتہاد اس سے صحیح نہیں۔ والاّ استحالہ ثابت کرو۔ لوہے کا بجسدہ اوپر سے اترنے کا اور جب استحال ثابت کر دو گے تو ہم کہیں کہ بسبب استحالہ معنی حقیقی کے معنی مجازی مراد لئے گئے۔ پس تب بھی تمہارا مطلب ثابت نہ ہوگا۔ کیونکہ نزول بجسدہ ابن مریم کا محال نہیں۔ والاّنزول بجسدہ ابن مریم کا استحالہ ثابت کرو۔ اگر کہو کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام وفات پاچکے۔ جب وفات پاچکے تو جنت میں داخل ہوگئے۔ کیونکہ وہ برگزیدہ نبی تھے۔ ’’قال اﷲ تعالیٰ قیل ادخل الجنۃ وادخلی جنتی‘‘ اور جو جنت میں داخل ہوا وہ وہاں سے نہ نکلے گا۔
’’قال اﷲ تعالیٰ وماہم منہا بمخرجین‘‘ پس حضرت عیسیٰ کیونکر بذات خود دنیا میں آسکتے ہیں؟ تو جواب اس کا یہ ہے کہ ثبوت اس امر کا تین مقدموں پر موقوف ہے۔ اوّل! وفات عیسیٰ دوسرے! موت کے بعد ہی جنت میں داخل ہو جانا۔ تیسرے! اس دخول کے بعد پھر وہاں سے نکلنا نہیں۔ جب تک یہ تینوں مقدمے ثابت نہ ہوں۔ تب تک یہ مطلب ثابت نہیں ہوسکتا اور ایک مقدمہ کے انتفاء سے بھی مقصود کا انتفاء ہو جاوے گا تو میں کہتا ہوں کہ یہ تینوں مقدمے غیر صحیح اور باطل ہیں۔ عدم صحۃ وبطلان مقدمہ اولی کا تو رسالہ کے اختتام کے قریب انشاء اﷲ تعالیٰ آوے گا اور صحیح نہ ہونا مقدمۂ ثانی اور ثالث کا کئی وجوہ سے ہے۔
وجہ اوّل! یہ ہے کہ قرآن وحدیث سے صاف طور پر یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ دخول جنت حشر کے بعد ہوگا۔ چنانچہ اﷲتعالیٰ اپنے کلام مجید میں فرماتا ہے۔ ’’ونفخ فی الصور فصعق من فی السمٰوٰت ومن فی الارض الیٰ قولہ تعالیٰ وسیق الذین اتقوا ربہم الیٰ الجنۃ زمراً حتیٰ اذا جاؤہا وفتحت ابوابہا وقال لہم خزنتہا سلام علیکم طبتم فادخلوہا خٰلدین‘‘ اور فرمایا ’’ہل ینظرون الاالساعۃ ان تاتیہم بغتۃ وہم لا یشعرون الیٰ قولہ تعالیٰ ادخلوا الجنۃ انتم وازواجکم تحبرون‘‘ اور فرمایا ’’ونفخ فی الصور ذلک یوم الوعید الیٰ قولہ تعالیٰ ادخلوہا بسلام ذلک یوم الخلود‘‘ اور حدیث میں تو بہت کثرت سے اس کا بیان ہے اور ان میں بتصریح یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ دخول جنت حشر کے روز ہوگا۔ پس ضرور ہے کہ قبل اس کے وہ جنت سے باہر ہوں۔ کیونکہ داخل کے واسطے پھر دخول کیسا اور یہ بات بہت ظاہر ہے۔ دیکھو شرح جامی میں بھی لکھ دیا ہے۔ ’’فانہ اذا قال الداخل فی البلد دخلت الدار لا یصح ان