والی نہ ہو اور مخل بالمقصود نہ ہو) بلکہ میری غرض یہ ہے کہ ایسے مجاز استعمال کرنا کہ مقصود اصلی اور مراد دلی کو فوت کردے اور بالکل بے قرائن ہو اور ایسی جگہ استعمال میں لاوے کہ معنی حقیقی لینے سے کوئی مانع نہ ہو اور معنی مجازی دل میں لے کر بولے۔ بالکل قبیح ہے اور عقل ونقل کے خلاف اور طرفہ اس پر یہ کہ اکثر جب بولے تو اسی لفظ مجازی کے ساتھ بولے۔ بلکہ اور الفاظ دیگر بھی کہ جو مبائن ہوں۔ اس کے مجاز کے اور معنی حقیقی کی طرف مضطر کرنے والے ہوں اور طرہ اس پر یہ کہ ایسے بڑے امر میں ہو کہ جس پر ایک جہاں کا دارومدار ہے کہ شریعت کے ایک ارکان سے ہیں اور عقائد سے اور پھر ایک کارخانہ کا کارخانہ خیالات کا بنا کر کھڑا کر دے۔ ایسے مجاز کہیں کلام عاقل میں نہیں اور کوئی عاقل ایسے مجاز کے استعمال کو پسند نہ کرے گا۔ یہ مجاز کیا ہے۔ بلکہ دھوکا دہی اور فریب ہے۔ ایسے مجاز ہرگز کلام شارع میں نہیں ہوسکتے۔ حاشاوکلا شارع کو ہرگز دھوکا دہی اور فتنہ میں ڈالنا منظور نہیں اور تضلیل خلائق مقصود نہیں۔ وہ تو امیین کی ہدایت کے واسطے ہے۔ نہ شعبدہ بازوں کے باطل عقیدہ کھولنے کی جگہ چنانچہ یہ پیشین گوئی نزول عیسیٰ بن مریم کی ایسی ہی ہے۔ (چھوٹا طالب علم بھی الفاظ روایات صحاح پر نظر کر کے معلوم کر سکتا ہے) اگر میری یہ بات صحیح نہیں تو بتاؤ کہ ہبوط کے کیا معنی ہیں اور نزول کے ارادہ معنی حقیقی سے کون مانع ہے؟ اصل تو یہ ہے کہ مانع کوئی نہیں۔ اپنے آپ کو عیسیٰ موعود بنانے کو دل چاہتا ہے۔ اگر احادیث کا صریح انکار کریں تو کافر مطلق کہلا ویں تو تدبیر ہی سے کام نکلالیں۔ ’’اللہم احفظنا من فتن الدجال وانصارہ‘‘ مخفی نہ رہے کہ اس جگہ دجل سے کام لیاگیا ہے۔ وہ یہ کہ دھوکا دہی عوام کے واسطے لفظ محاورۂ عرب کا بول کر کہ جو حقیقت مجاز کو عام ہے۔ چند شواہد مجاز کے پیش کر دئیے اور کہہ دیا کہ محاورۂ عرب میں بغیر جسم عنصری وخاکی کے بھی نزول کا استعمال آیا ہے۔ (جس کی حقیقت آگے کھولی جاوے گی) حالانکہ یہ عوام کو بڑے دھوکا دینے کی بات کہی۔ کیونکہ وہ یہ بات تو خیال کریں گے کہ استعمال اگر ہے تو استعمال معنی مجازی کا بھی ہوتا ہے تو ان مثالوں سے یہ لازم نہیں آتا کہ ہر جگہ معنی مجازی ہو سکیں اور جہاں چاہیں معنی مجازی لے لیا کریں۔ چاہے تعذر معنی حقیقی کا ہو چاہے نہ ہو۔ نعوذ باﷲ من شرور انفسنا اور یہ جو کہا کہ ’’انزلنا الحدید‘‘ میں اب کوئی بیان کرے کہ حدید بوجود عنصری آسمان سے اتارا گیا تو میں کہتا ہوں کہ کیا عجب ہے کہ اوّلاً اﷲ تبارک وتعالیٰ نے لوہے کو اوپر سے اتار ہو۔ چنانچہ ظاہر لفظ قرآن مجید اسی کی مقتضی ہیں اور مؤید اسی کا ہے جو ابن جریر اور ابن ابی حاتم میں ہے۔ جس کو حافظ ابن کثیر نے نقل کیا۔ ’’عن ابن عباسؓ قال ثلاثۃ اشیاء نزلت مع آدم السندان