عنصریہ وخاکیہ کی طرف کی جاوے گی تو بلاشبہ اس کے معنی نزول بجسمہ العنصری وخاکی ہی کے ہوں گے۔ یہ بات ایسی ظاہر ہے کہ بیان کی چند ان حاجت نہیں۔ چنانچہ موضع متنازع فیہ میں بھی ہے کہ نسبت نزول کی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف کی گئی ہے تو اس جگہ پر یہی معنی ہوں گے کہ وہ اپنے شریف جسم عنصری کے ساتھ نزول فرمائیں گے تو معنی حقیقی نزول کے یہی ہوئے۔ علاوہ اس کے ایک بات اور سن لینے کے قابل ہے۔ وہ یہ کہ ظاہر بات ہے کہ نزول کے معنی اعلیٰ سے اسفل کی طرف نقل کے ہیں۔ (چنانچہ میں کسی کتاب لغت کو گمان نہیں کرتا کہ اس میں یہ معنی نہ ہوں۔ میں نے جہاں تک کتب لغت دیکھے سب میں یہ بات موجود پائی) پس جس وقت نزول کی نسبت کسی جسم کی طرف کی جاوے گی تو بے شک اس کے معنی اسی جسم کے نقل کے ہوں گے۔ مثلاً کہیں کہ اٹاری پر سے پتھر گرایا۔ کوٹھے پر سے زید اترآیا آسمان سے اولے برسے تو سوائے اس کے اور کوئی معنی نہ ہوں گے کہ وہ اپنے جسم ذاتی عنصری کے ساتھ اوپر سے نیچے آئے۔ اصلی اور حقیقی معنی اس کے یہی ہوں گے۔ پھر واضح رہے کہ معنی حقیقی مقدم ہوتے ہیں اور معنی مجازی اسی وقت مراد ہوتے ہیں کہ جب معنی حقیقی سے تعذر ہو اور معنی حقیقی لینا ممکن نہ ہو اور بن نہ سکیں۔ یہ قاعدہ ایسا مسلم ہر اہل علم کا ہے اور مشہور ہے کہ جس میں کسی علم والے کو شک نہیں اور کسی زبان کا ادیب اس کا منکر نہیں۔ لہٰذا حاجت استشہاد کی نہیں۔ کتب فن معانی والبیان کی اور اصول کی اور ادب وغیرہ کے اس سے مملوہیں۔ پس معنی حقیقی بنتے ہوئے معنی مجازی لینا نصوص شرعیہ کو تحریف کرنا ہے۔
حدیث مذکورہ بالا لیوشکن ان ینزل فیکم ابن مریم (یعنی قریب ہے کہ تم میں ابن مریم نزول فرماویں گے) میں معنی حقیقی لینے سے کون مانع ہے کہ جس کے سبب سے معنی حقیقی چھوڑ کر باطل معنی مجازی لئے گئے۔ پھر دوسری روایت میں لفظ ہبوط کے ساتھ بھی وارد ہے۔ وہاں کس طرح پر تحریف کی صورت نکلے گی۔ بڑی جائے تعجب ہے کہ جناب رسول اﷲﷺ نے کس کثرت سے نزول اور کہیں ہبوط کے ساتھ عیسیٰ علیہ السلام کا بیان فرمایا۔ اگر نبی صاحب کا یہی مقصود ہوتا جو مرزاقادیانی کا مطلب ہے تو کیا رسول اﷲ پر ویسا لفظ فرمانا ایسا مشکل تھا اور اس کی تعبیر وتفسیر پر قادر نہ تھے کہ اس کثرت سے نزول وہبوط کے لفظ کے ساتھ فرمایا جو صریح مرزا کے مطلب دلی کو مبطل ہے۔ میری غرض یہ نہیں کہ مجاز کوئی چیز نہیں اور استعمال مجاز کہیں ٹھیک نہیں۔ (کیونکہ بہت جگہ مجاز ہی احسن ہوتی اور حقیقت سے ابلغ ہوتی ہے کہ اس سے مناسبات لطیفہ پیدا کی جاتی ہیں۔ وغیرہا من الفوائد مگر جہاں کہیں حقیقت کا ارادہ متعذر ہو اور سامع کو فتنہ میں ڈالنے