جانتے تو پھر مباہلہ میں (کہ جس میں ان کا اس قدر فائدہ تھا کہ نہ کسی وعظ میں متصور ہے نہ کسی مناظرہ میں) ایسے واہیات بہانے کیوں لاتے۔ بلکہ رسول اﷲﷺ کی طرح مباہلہ کے نام سے میدان میں نکل کھڑے ہوتے۔ نصاریٰ نجران کی طرح کیوں بھاگتے یہ ہم خوب جانتے ہیں کہ چاہئے زمین ٹل جائے۔ مگر مرزاقادیانی ہرگز مباہلہ نہیں کریں گے۔ والاّ کچھ تحقیق مباہلہ بین المسلمین لکھتے۔ مگر اب بے سود ہے۔
قولہ… (قول الغزنوی سلمہ اﷲ) جیسا کہ حدیث صحیحین میں ہے۔ لیوشکن ان ینزل فیکم ابن مریم اس حدیث سے صاف معلوم ہوا کہ مرزاتوابن مریم نہیں۔
اقول… (قول مؤلف اعلام الناس) مرزاقادیانی کب کہتے ہیں کہ میں حقیقتاً ابن مریم ہوں۔ بلکہ جن احادیث صحاح میں پیشین گوئی نزول ابن مریم کے نبی علیہ السلام نے فرمائی ہے۔ اس میں تاویل کرتے ہیں جو بموجب قواعد عربیہ کے صحیح معلوم ہوتی ہے۔ مگر یہ وہ تاویل ہے۔ جس کی نسبت اﷲتعالیٰ فرماتا ہے۔ ’’یوم یأتی تاویلہ یقول الذین نسوہ من قبل قد جاء ت رسل ربنا بالحق‘‘ اب صحت تاویل بموجب محاورۂ عربیہ کے بیان کی جاتی ہے۔ واضح ہو کہ بموجب محاورہ عرب کے معنی نزول من السماء وغیرہ میں یہ کچھ ضرور نہیں کہ سماء سے نزول بجسم عنصری وخاکی ہی ہو۔ دیکھو اﷲتعالیٰ فرماتا ہے۔ ’’وانزلنا الحدید فیہ باس شدید ومنافع للناس‘‘ اب کوئی بیان کرے کہ حدید بوجود عنصری آسمان سے اتارا گیا ہے۔
اقول… وبااﷲ التوفیق جب مرزاقادیانی خود کہتے ہیں کہ میں حقیقتاً ابن مریم نہیں تو پھر نصوص شرعیہ کو کیوں بلاوجہ حقیقت سے صرف کرتے ہیں اور اپنے آپ کو پیشین گوئیوں کا مصداق بناتے ہیں اور حقیقت کو بدل کر مجاز لاتے ہیں۔ مگر یہ وہی تبدیلی ہے۔ جس کی نسبت اﷲتعالیٰ فرماتا ہے۔ ’’یحرفون الکلم عن مواضعہ ونسوا حظاً مما ذکروا‘‘ اور یہ وہ تاویل نہیں جس کی نسبت اﷲتعالیٰ فرماتا ہے۔ ’’یوم یأتی تاویلہ‘‘ اس کو اس سے کیانسبت ہے۔ اب جو صحت تاویل بیان کی گئی ہے۔ اس کو سنو۔
واضح رہے کہ بلاشبہ نزول صفات اجسام سے ہے اور اس میں جسم کے ساتھ ہونا پڑا ہوا ہے۔ جیسا کہ مجمع البحار میں ہے۔ ’’النزول والصعود والحرکات من صفات الاجسام‘‘ اور قاضی بیضاویؒ لکھتے ہیں۔ ’’والانزال نقل الشیٔ من الاعلی الیٰ الاسفل وہو انما یلحق المعانی بتوسط لحوقہ الذوات الحاملۃ لہا‘‘ تو جس وقت اس کی نسبت اجسام