انی قدرأیت خیر امن ملاعنتک فقال وماہو فقال حکمک الیوم الیٰ اللیل والیلتک الیٰ الصباح فمہما حکمت فینا فہو جائز فقال رسول اﷲﷺ لعل وراء ک احدیثرب علیک فقال شرجیل سل صاحبی فسا لہا فقالا مایروا لوادی ولا یصدر الا عن رای شرجیل فرجع رسول اﷲﷺ فلم یلاعنہم‘‘ دیکھو جب نبی علیہ السلام کو یہ بات معلوم ہوئی کہ یہ سردار ہیں۔ تب آپ لوٹے اور اس کی بات کا اعتبار کیا تو معلوم ہوا کہ پہلے سے آپ اس کو نہ جانتے تھے۔ پس اگر بڑا آدمی شرط ہوتا تو کیوں آپﷺ پہلے سے مباہلہ کے واسطے مستعد ہو جاتے اور مباہلہ کے لئے نکل کھڑے ہوتے۔
چوتھے! یہ کہ تمہارے پیراسی درخواست مباہلہ کے جواب میں کیا فرماتے ہیں۔ دیکھو اشتہار استدعا مباہلہ باردیگر جو منجانب مولوی عبدالحق غزنوی ہے۔ مطبوعہ ۱۷؍شعبان۱۳۰۸ھ کہ اس میں ان کا جواب بھی نقل کیاگیا ہے۔ عبدالحق کون ہے۔ کسی گروہ کا مقتداء یا مقتدی اور عبدالحق مباہلہ میں اکیلا ہے یا کوئی اور بھی اس کے ساتھ ہے۔ ’’بہرحال میں مباہلہ کے لئے مستعد کھڑا ہوں۔ مگر اس شرط پر کہ مولوی نذیر حسین صاحب دہلوی اور مولوی محمد حسین بٹالوی اور مولوی احمد اﷲ امرتسری بالاتفاق یہ فتویٰ لکھ دیں کہ مسلمانوں کا آپس میں فیصلہ مباہلہ سے جائز ہے۔‘‘ (خلاصہ مجموعہ اشتہارات ج۱ ص۲۰۸)
دیکھو تمہارے پیر کہیں جانب مخالف کے مباہلہ میں بڑے آدمی ہونے کی شرط لگاتے ہیں؟ وہ تو بہرحال مستعد اپنے آپ کو کہتے ہیں۔ چاہے عبدالحق مقتدی ہو یا مقتدائ۔ اکیلے ہوں یا اور کسی کے ساتھ۔ اگر شرط ہوتا تو وہ یہ کیسے کہتے۔ مگر یہاں تو اندھا دھند ہے کچھ بولنا چاہئے۔ ٹھیک پڑے یا نہ پڑے۔ پیر کے برابر پڑے یا ان سے بھی دو ہاتھ اونچے، یہ تو یہ کہہ کے جھوٹے اور ان کے پیر بہمانہ فتویٰ علماء ثلاثہ کا لائے۔ یہ عجب بات ہے۔ جس وقت مسیح علیہ السلام کی گدی پر بیٹھے اور متصرف عالم کا کواکب بنایا وغیرہا من الحادیات۔ تب کسی عالم سے فتویٰ نہ پوچھا۔ اب جب قلعی کھلنے لگی تو مولوی صاحبوں کو پکارنا شروع کیا۔ کیا جب مولوی محمد اسماعیل علی گڑھی سے مباہلہ طلب کیا تھا؟ اس وقت وہ مسلمان نہ تھے یا تم مسلمان نہ تھے۔
’’واذا دعوا الیٰ اﷲ ورسولہ اذا فریق منہم معرضون وان یکن لہم الحق یاتوا الیہ مذعنین افی قلوبہم مرض ام ارتابوا‘‘
اصل تو یہ ہے کہ خود بھی اپنے آپ کو دل میں سچا نہیں جانتے۔ کیونکہ اگر سچا اور حق پر