فرماویں گے۔ یا اس وجہ سے کہ میاں عبدالحق کچھ ایسے اکابر اور مشاہیر میں سے نہیں۔ جن سے مباہلہ کرنے میں اثر تام اور نفع عام پہنچے منظور نہ فرماویں گے۔ تو پھر ایسے مباہلوں کا ثمرہ مفید عام اور نتیجہ معتد بہا اور نفع تمام کیا ہو کہ جس کا اثر ایک ملک ہند پر بھی نہ پڑے گا۔ الیٰ آخر القول!
اقول… یہ امور جو تم نے مباہلہ کے واسطے بیان کئے آیا یہ شرط ہیں۔ مباہلہ کے واسطے یا نہیں۔ در صورت شق ثانی کیوں مباہلہ کے واسطے نہ کھڑے ہوئے اور حق کو (جو تمہاری زعم میں ہے) چھپا گئے اور درصورت شق اوّل یعنی یہ امور مباہلہ کے شروط سے ہیں (اور تمہاری عبارت رسالہ کی اس کو مقتضی ہے) تو اس پر دلائل شرعیہ سے دلیل لاؤ اور قرآن وحدیث سے ان کی شرطیہ کو بیان کرو۔ ’’وان لم تفعلوا ولن تفعلوا فاتقوا النار التی وقودہا الناس والحجارۃ‘‘ اور یہ جو کہتے ہو کہ جانب مخالف سے کوئی بڑا شخص ہونا چاہئے کہ اس کی غالبی اور مغلوبی کا اثر تمام اہل اسلام کو پہنچے۔ ورنہ ایسے مباہلوں کا ثمرہ مفید عام اور نتیجہ معتد بہا کیاہوگا۔ تو ہم کہتے ہیں کہ کچھ بہت بڑے ہونے کی ضرورت نہیں۔ اگر ایسے آدمی بھی مباہلہ کریں گے تو ان کی غالبی مغلوبی ایسی مقصود رہنے والی نہیں۔ ادنیٰ ادنیٰ بات تو چھپتی نہیں اس قدر بڑی بات چھپ جائے اور لوگوں پر اس کا اثر نہ پڑے۔ یہ بات خلاف عقل ہے۔ اس قدر میں بھی فائدہ عام اور نتیجہ معتد بہا ہوسکتا ہے اور تمام اہل اسلام کو کسی صورت ممکنہ میں نظر نہیں آتا۔ یہ محض بہانہ ہے۔
دوسرے! اﷲ جل شانہ فرماتا ہے۔ ’’فمن حا جک فیہ من بعد ماجاء ک من العلم فقل تعالوا ندع ابناء نا‘‘ دیکھو اﷲ تعالیٰ نے من کے ساتھ فرمایا جو عام ہے۔ اعلیٰ وادنیٰ سب کو یعنی جو کوئی اس میں جھگڑا کرے اس سے مباہلہ کرنا۔ پھر تم نے یہ خاص کیسے کر لیا۔ لاؤ کوئی مخصص والاّ ۔اﷲ کے کلام کے مقابلہ سے ڈرو اور باز آؤ۔
تیسرے! یہ کہ قصۂ وفد نجران کو دیکھو جب نصاریٰ نجران کے قاصد رسول اﷲﷺ کے پاس آئے تو رسول اﷲﷺ نے آیات جو دوبارہ مسیح کے ہیں پڑھیں تو وہ لوگ اس کے ماننے سے انکاری ہوئے۔ تب رسول اﷲﷺ مباہلہ کے واسطے تیار ہوئے اور نکلے۔ رسول اﷲﷺ نے یہ نہ پوچھا کہ تم لوگ بہت بڑے آدمی ہو یا نہیں اور تمہارے ساتھ مباہلہ کا اثر تمام اہل عرب کو پہنچے گا یا نہیں۔ بلکہ روایات سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ جناب رسول اﷲﷺ کو اس بات کی بھی خبر نہ تھی کہ یہ لوگ نجران والوں کے بھی سردار ومقتداء ہیں کہ نہیں اور تمام نصاریٰ کا ہونا تو کیا۔ چنانچہ بیہقی کی روایت میں اس طرح ہے کہ ’’قال فتلقی شرجیل رسول اﷲﷺ فقال لہ