کہ اس سے رات مراد نہیں۔ یہ بھی قابل دید ہے اور جو (توضیح المرام ص۴۹، خزائن ج۳ ص۷۶) میں بیان معنی آیت متضمن ہوکر سجدۂ آدم علیہ السلام اپنے آپ کو مسجود ومخدوم ملائکہ ثابت کرنا چاہا ہے۔ وہ بھی لائق غور ہے۔ بخوف طویل عبارت نہیں نقل کی گئی۔ کیسے کیسے الحادیات بیان کئے ہیں کہ الامان اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی توہین اور منقصت شان ان کی کتب میں تو اس قدر ہیں کہ کیا بیان کیا جاوے۔
(ازالہ اوہام ص۶، خزائن ج۳ ص۱۰۵،۱۰۶) میں جو شروع کی ہے تو کہیں صراحۃً اور کہیں اشارۃً نہ معلوم کہاں تک چلی گئی۔ بعض جگہ کے الفاظ کو لکھتا ہوں۔ ص۶،۷ میں لکھتے ہیں: ’’ماسوا اس کے اگر مسیح کے اصلی کاموں کو ان کے حواشی سے الگ کر کے دیکھا جاوے جو محض افتراء کے طور پر یا غلط فہمی کی وجہ سے کھڑے کئے گئے ہیں تو کوئی اعجوبہ نظر نہیں آتا۔ بلکہ مسیح کے معجزات اور پیشگوئیوں پر جس قدر اعتراض وشکوک پیدا ہوتے ہیں۔ میں نہیں سمجھ سکتا کہ کسی اور نبی کے خوارق یا پیش خبریوں میں کبھی ایسے شبہات پیدا ہوئے ہوں کیا تالاب کا قصہ مسیحی معجزات کے رونق دور نہیں کرتا اور پیش گوئیوں کا اس سے بھی زیادہ تر ابتر ہے۔‘‘
پھر لکھتے ہیں: ’’اور اس سے بھی زیادہ تر قابل افسوس یہ امر ہے کہ جس قدر حضرت مسیح کی پیشین گوئیاں غلط نکلیں۔ اس قدر صحیح نہیںنکل سکیں۔‘‘ (ایضاً)
اور (ازالہ اوہام ص۱۵۸، خزائن ج۳ ص۱۸۵) میں لکھتے ہیں ؎
اینک منم کہ حسب بشارات آمدم
عیسیٰ کجا است تابہ نہد پابمنبرم
اور (ازالہ اوہام ص۱۵، خزائن ج۳ ص۱۰۰) میں ہے۔ ’’کیونکہ حضرت مسیح کی سخت زبانی تمام نبیوں سے بڑھی ہوئی ہے اور انجیل سے ثابت ہے کہ اس سخت کلامی کی وجہ سے کئی مرتبہ یہودیوں نے حضرت مسیح کے مارنے کے لئے پتھر اٹھائے۔‘‘
اور اسی حصہ اوّل میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے معجزات کے بارہ میں جو صریح کلام مجید سے ثابت ہیں۔ (ازالہ اوہام ص۲۹۵تا۳۲۲، خزائن ج۳ ص۲۵۱تا۲۶۳) تک کس قدر خرافات بھرے ہیں اور ان سے انکار اور کیسی ہجو کی ہے کہ نقل کرتے شرم آتی ہے۔ (ازالہ اوہام ص۳۰۴، خزائن ج۳ ص۲۵۵) میں لکھتے ہیں: ’’اور ایسا معجزہ دکھانا عقل سے بعید نہیں۔ کیونکہ حال کے زمانہ میں بھی دیکھا جاتا ہے کہ اکثر صناع ایسی ایسی چڑیاں بنالیتے ہیں کہ وہ بولتی بھی ہیں اور ہلتی بھی ہیں اور دم