اور (توضیح المرام ص۳۸، خزائن ج۳ ص۷۰) میں لکھتے ہیں: ’’انہیں نفوس کے پوشیدہ ہاتھ کے زور سے تمام ستارے اپنے اپنے کام میں مصروف ہیں اور جیسے خداتعالیٰ تمام عالم کے لئے بطور جان کے ہے۔ ایسے ہی (مگر اس جگہ تشبیہ کامل مراد نہیں) وہ نفوس نورانیہ کواکب اور سیارات کے لئے جان کا ہی حکم رکھتے ہیں۔‘‘
اور (توضیح المرام ص۶۷، خزائن ج۳ ص۸۵،۸۶) میں یوں کہا: ’’بلکہ ہر ایک فرشتہ علیحدہ علیحدہ کاموں کے انجام دینے کے لئے مقرر کیاگیا ہے۔ دنیا میں جس قدر تم تغیرات وانقلاب دیکھتے ہو یا جو کچھ ممکن قوت سے خیر فعل میں آتا ہے یا جس قدر ارواح واجسام اپنے کمالات مطلوبہ تک پہنچتے ہیں۔ ان سب پر تاثیرات سماویہ کام کر رہے ہیں اور کبھی ایک ہی فرشتہ مختلف طور کے استعدادوں پر مختلف طور کے اثر ڈالتا ہے۔‘‘ غور کرو! یہ کن عقائد کفریہ کو جن کا رد بکلی قرآن وحدیث میں ہوچکا ہے۔ تعلیم کیا جاتا ہے اور کس دجل کے ساتھ مخلوق کو گمراہ کیا جاتا ہے۔ اب بھی کچھ زندقہ والحاد میں شک رہ گیا۔ پھر اس کے بعد ایک طویل عبارت میں یہ بھی مضمون ادا کیاگیا ہے۔ تصریح کے ساتھ کہ کوئی فرشتہ بذات خود زمین پر نہیں آتا اور اپنے مقام سے جدا نہیں ہوتا۔ بلکہ صرف اس کی تاثیر نازل ہوتی اور اس کی عکسی تصویرانبیاء کے دل میں منقوش ہو جاتی ہے۔ دیکھو (توضیح المرام ص۶۸، خزائن ج۳ ص۸۶،۸۷،۹۵) میں اور پھر ذات باری تعالیٰ کے ساتھ یہ کیا کم گستاخی ہے کہ گو مجازاً ہی سہی اپنے آپ کو اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اﷲ کے بیٹے کے ساتھ تعبیر کیا۔ چنانچہ (توضیح المرام ص۲۷، خزائن ج۳ ص۶۴) میں ہے: ’’مسیح اور اس عاجز کا مقام ایسا ہے کہ اس کو استعارہ کے طور پر ابنیت کے لفظ سے تعبیر کر سکتے ہیں یعنی ابن اﷲ کہہ سکتے ہیں۔‘‘ نعوذ باﷲ من ذالک!
ایسے ہی (توضیح المرام ص۲۲، خزائن ج۳ ص۶۲) میں تثلیث ثابت کی گئی ہے۔ عبارت طویلہ کے بعد کہا: ’’اسی وجہ سے اس محبت کی بھری ہوئی روح کو خداتعالیٰ کی روح سے جو نافخ المحبت ہے استعارہ کے طور پر ابنیت کا علاقہ ہوتا ہے اور چونکہ روح القدس ان دونوں کے ملنے سے انسان کے دل میں پیدا ہوتی ہے۔ اس لئے کہہ سکتے ہیں کہ وہ ان دونوں کے لئے بطور ابن ہے اور یہی پاک تثلیث ہے۔‘‘
بھلا یہ عقائد کفریہ کو درپردہ عوام میں پھیلانا ہے کہ نہیں اور یہ اسلام کے ساتھ کھلی دشمنی ہے کہ نہیں فانصف۔ پھر (فتح الاسلام ص۵۴، خزائن ج۳ ص۳۲) میں لیلتہ القدر کو زمانہ ظلمانی بنایا ہے