باوجود دل میں یقین ہونے کے انکار کریں گے۔ پس یہ اقرار کے بعد انکار کرنے کے معنی اگر مرزاقادیانی نے لئے ہیں تو وہ اپنے الہام کو نہیں سمجھے۔ یا تم نے یہ اس کے معنی لئے ہیں تو تم مرزا کے الہام کو نہیں سمجھے۔ کیونکہ جو الہام کے لفظ ہیں۔ بزعم مرزا اس کے معنی تو یہ ہیں دل میں یقین ہے اور ظاہر میں انکار ہے اور اگر تصدیق کے بعد منکر ہو جانے سے یہ غرض ہے کہ باوجود دل میں یقین ہونے کے انکار کریں گے تو تمہارا اس اقرار وانکار مولوی صاحب کو اس الہام کا مصداق بنانا بڑی نادانی کی دلیل ہے۔ کیونکہ یہ تم کو کیسے معلوم ہوا کہ اب حالت انکار میں مولوی صاحب کے دل میں مرزاکی حقیت کا یقین ہے اور پھر انکار کرتے ہیں۔
دوسرا فساد اس قول میں یہ ہے کہ مولوی صاحب کے اقرار کا زمانہ اور ہے اور انکار کا اور، اور الفاظ چاہتے ہیں اتحاز زمانہ کو کیونکہ ’’واستیقنتہا‘‘ حال ہے۔ کما لا یخفی!
تیسرا یہ کہ الفاظ الہام صیغہ ماضی ہیں اور مولوی صاحب کا انکار مستقبل میں ہے۔ پس اس انکار کو مصداق بنانا صحیح نہ ہو گا۔ الابالتاویل!
قولہ… پس انکار الہام سے بھی ملہم ہونا مرزاقادیانی کا ثابت ہوگیا۔
اقول… کیا خوب ثابت ہوگیا اور اس کے ساتھ تمہاری خوش فہمی بھی ثابت ہوگئی۔
قولہ… جب سے مولوی محمد حسین صاحب نے مرزاقادیانی کی تکذیب شروع کی۔ بعد اس تصدیق کے جو نقل کی گئی۔ تب سے مولوی صاحب ممدوح کا وہ مرتبہ مقبولیت جو تمام اہل حدیث ہند کے دلوں میں تھا وہ اب نہیں رہا۔
اقول… اس کو ہم افتراء کہہ سکتے ہیں۔ یہ کہا جائے تو بجا ہے کہ وقعت مولوی صاحب کی جب سے علماء کے نزدیک کم ہوئی جب انہوں نے بعض بعض رسائل ومسائل خلاف قرآن وحدیث واجماع امت کے لکھ کر شائع کئے تھے۔ چنانچہ یہ بات اہل علم پر پوشیدہ نہیں اور مسائل دینیہ کو موجودہ حالت کے مطابق کرنا چاہا تھا۔ چنانچہ اہل خبرت پر مخفی نہیں۔ ’’فما ادعیتم کذب صریح واما فہاتوا برہانکم ان کنتم صادقین‘‘ ہاں اگر یہ کہا جاوے تو ٹھیک ہے کہ جب سے تم نے ان دعاوے باطلہ کی تصدیق کی اور دجل کی نصرت کی تو تمہاری جو کچھ مقبولیت تھی بالکل جاتی رہی۔ عوام اور اہل علم سب کے نزدیک۔
قولہ… الحاصل اور بھی بہت سے علماء وفضلاء مرزاقادیانی کی ولایت اور محدث ہونے اور ملہم ہونے کی تصدیق فرماتے ہیں۔ بلکہ ان کے فیضان سے مستفید ومستفیض ہوتے ہیں۔ اگر ان