گا۔ پیچھے نبوت کا دعویٰ کر بیٹھے گا تو سمجھ دار اس سے الگ ہو جاویں گے۔ پھر خدائی کا دعویٰ کرنے لگے گا تو اس کی آنکھ چھپ جائے گی اور کان کٹ جائیں گے اور دونوں آنکھوں کے درمیان میں کافر لکھ دیا جاوے گا تو کسی مسلمان پر چھپا نہ رہے گا۔ تمہارے یہاں بھی دعویٰ نبوۃ پر تو نوبت آگئی ہے۔ آگے دیکھئے ؎
یارما امسال دعویٔ نبوۃ کردہ استسال دیگر گر خدا خواہد خدا خواہد شدن
دوسری وجہ براہین احمدیہ اور کحل الجواہر کی تمہارے مدعائے اصلی کے مفید نہ ہونے کی یہ بھی ہے کہ ایک شخص کی بعض بات حق ہونے سے اس کی سب باتوں کی حقیت لازم نہیں آتی ہے۔ تیسری یہ کہ پہلے جو اس کو اچھا جانا گیا تھا تو اسی وجہ سے کہ اﷲ رسول کے دین کی تائید کی بات کی تھی۔ پس جب قول رسول کی توہین اور قرآن وحدیث کی کہ جو بیّن الدلالۃ صحیح الثبوت بلکہ قطعی الثبوت تھے۔ تحریف کی، تو اس کو چھوڑ دینا چاہئے جو وجہ قبول کی تھی ویسی ہی وجہ عدم قبولیت کی بھی پیش آگئی۔ پھر ترجیح بلا مرجح بلکہ ترجیح مرجوح کیوں ’’اتبع الحق ولا تتبع الہوی خذما صفا ودع ما کدر‘‘
قولہ… مولوی محمد حسین صاحب اشاعۃ السنہ نے اس وقت میں۔ الخ!
اقول… حاصل یہ ہے کہ مولوی محمد حسین صاحب پہلے مرزاقادیانی کے بہت مداح تھے۔ بہ سبب رفع کسی قدر حجاب کے اور اب بڑے ان کے منکر مکذب ہوگئے۔ بسبب انواع حجب کے۔ چونکہ عبارت صاحب رسالہ کی طویل تھی اور اس کے نقل میں عسرت تھی اور بغیر نقل خلاصہ مطلب نہ کھلتا۔ لہٰذا حاصل بیان کر دیا۔ اب ان کی غرض اس قصہ کے نقل سے سنو۔
قولہ… میں نے یہ عبارات ان کے رسالہ کی اس واسطے نقل کئے ہیں کہ مرزاقادیانی کو ایک الہام یہ بھی ہوا تھا کہ ’’جحدوا بہا واستیقنتہا انفسہم‘‘ چنانچہ براہین احمدیہ میں یہ الہام بشرح وتفسیر مندرج ہے۔ جس کا ماحصل یہ ہے کہ بعضے لوگ میری تصدیق کر کے بعد تصدیق بھی منکر ہو جاویں گے۔ میں کہتا ہوں کہ اس کے پورے پورے مصداق بسبب عظمت شان اپنی کے مولوی صاحب ہی ہیں۔
اقول… تصدیق کے بعد منکر ہو جانے سے اگر یہ غرض ہے کہ اقرار کے بعد انکار کریں گے۔ تو یہ جو لفظ الہام میں بزعم مرزا ان کا یہ مطلب ہر گز نہیں۔ کیونکہ جحد وابہا کے معنی تو یہ ہیں کہ باوجود