اﷲ جل شانہ اس دین کی مدد بدکار آدمی سے بھی کرالیتا ہے۔ قصہ ورود اس حدیث کا یہ ہے کہ غزوہ حنین میں رسول اﷲﷺ نے ایک شخص کے واسطے جو اپنے آپ کو مسلمان کہتا تھا فرمایا کہ یہ اہل نار سے ہے۔ جب کفار سے مقاتلہ ہوا تو اس شخص نے مسلمانوں کی طرف سے بہت قتال کیا اور بہت کفار کے ساتھ لڑا تو ایک آدمی نے رسول اﷲﷺ سے آکر عرض کیا کہ یا رسول اﷲ وہ شخص تو بہت قتال کرتا ہے اور اس کے سبب سے زخمی بھی بہت ہوگیا اور اس کو آپﷺ نے دوزخی فرمایا۔ اس بات سے بعض آدمیوں کے دل میں شک آگیا اتنے میں اسی شخص کو ایک زخم سے تکلیف ہوئی تو اس نے ایک تیر لے کر اس سے اپنے آپ کو قتل کر دیا تو لوگوں نے دوڑ کر رسول اﷲﷺ کو اس بات کی خبر کی تو آپﷺ نے ایک حدیث فرمائی۔ جس کا ٹکڑا یہ حدیث ہے جو ذکر کی۔
تنبیہہ
واضح رہے کہ ترجمہ عبارات کا تمام رسالہ میں حاصل معنی کے ساتھ کیا جاوے گا۔ لفظی معنی کا لحاظ نہیں۔ کیونکہ اس میں یا تطویل زائد ہوتی یا مطلب عوام کے سمجھ میں نہیں آتا۔ مگر یہ بھی واضح رہے کہ اپنی طرف سے بھی کوئی لفظ نہ بڑھایا جاوے گا۔ جو لفظوں سے نکلے گا اسی کا حاصل لکھا جاوے گا۔ فقط)
حاصل مطلب یہ ہے کہ اگر کسی سے اسلام کی مدد کا کام ہو جاوے تو یہ گمان نہ کرنا چاہئے کہ بس سب اس کی باتیں حق ہیں۔ جیسا کہ یہاں پر ہے۔ بلکہ ہم کہتے ہیں کہ یہی اس کی دجالیت کی دلیل ہے کہ اوّل دجل اور دھوکے کے ساتھ مسلمانوں کو ان کی طبیعت کے موافق ایک کام بڑا کر کے اور حمیت اسلامی کا نام کر کے اپنی طرف گرویدہ کیا اور پھر اپنا مقصد اصلی کھولا۔ چنانچہ طریقہ دجال موعود اکبر کا بھی حدیث سے یہی معلوم ہوتا ہے۔ ’’عن عبداﷲ بن عمر عن النبیﷺ انہ قال الدجال لیس بہ خفا یجیٔ قبل المشرق فیدعو الیٰ الدین فیتبع ویظہر فلا یزال حتی یقدم الکوفۃ فیظہر الدین ویعمل بہ فیتبع ویحث علی ذلک ثم یدعی انہ نبی فیضع من ذلک کل ذی لب ویفارقہ فیمکث بعد ذالک فیقول انااﷲ فتغشی عینہ وتقطع اذنہ ویکتب بین عینہ کافر فلا یخفے علی کل مسلم الحدیث اخرجہ الطبرانی بسند ضعیف کمافی الفتح‘‘ یعنی نبی صاحب نے فرمایا کہ دجال کی بات پوشیدہ نہیں۔ مشرق کی جانب سے آوے گا تو لوگوں کو دین کی طرف بلاوے گا تو لوگ اس کے تابع ہو جاویں گے اور لوگوں کو دین کا شوق دلائے