وجہ سوم… اس حدیث مذکور سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں خروج یاجوج وماجوج بصفت خاصہ ثابت ہوتا ہے۔ یہ بات بھی مرزاقادیانی کے زمانہ میں اب تک مفقود ہے اور نہ ان کے زمانہ میں اس کے وقوع کی امید ہے۔
وجہ چہارم… اس حدیث میں چار مقام پر مسیح موعود کے لئے لفظ نبی اﷲ کا آیا ہے۔ پس اگر اپنے آپ کو نبی اﷲ کہتا ہے تو یہ مخالف ہے۔ آیہ کریمہ ’’ولکن رسول اﷲ وخاتم النبیین‘‘ اور حدیث ’’وانا خاتم النبیین‘‘ کی یہ متفق علیہ ہے اور اگر اپنے آپ کو نبی اﷲ نہیں کہتا تو مسیح موعود کا مصداق نہ ہوا۔
دلیل ہفتم، ہشتم، نہم… مرزاقادیانی کے مسیح موعود نہ ہونے کی یہ حدیث ہے۔ تفسیر ابن کثیر میں ہے۔ ’’قال۱؎ الامام احمد حدثنا عفان حدثنا ہمام انبانا قتادۃ عن عبدالرحمن عن ابی ہریرہؓ ان النبیﷺ قال الانبیاء اخوۃ العلات امہاتہم شتّی ودینہم واحد وانی اولیٰ الناس بعیسیٰ بن مریم لانہ لم یکن نبی بینی وبینہ وانہ نازل فاذا رایتموہ فاعرفوہ رجل مربوع الیٰ الحمرۃ والبیاض علیہ ثوبان ممصران کأن راسہ یقطروان لم یصبہ بلل فیدق الصلیب ویقتل الخنزیر ویضع الجزیۃ ویدعوا الناس الیٰ الاسلام ویہلک اﷲ فی زمانہ الملل کلہا الا الاسلام ویہلک اﷲ فی زمانہ المسیح الدجال ثم تقع الامانۃ علیٰ الارض حتیٰ ترتع الاسود مع الابل والنمار مع البقر والذئاب مع الغنم ویلعب الصبیان بالحیات لا تضرہم فیمکث اربعین ثم یتوفی ویصلے علیہ المسلمون وکذا رواہ ابوداؤد عن ہدبۃ بن خالد عن ہمام بن یحییٰ انتہی وقال الحافظ فی فتح الباری رواہ ابوداؤ دباسناد صحیح‘‘
۱؎ اس حدیث کے سب روات رجال صحیحین ہیں۔ سوائے عبدالرحمن ابن آدم کے کہ وہ ایسا ثقہ ہے کہ کسی نے اس میں جرح نہیں کی۔ اسی لئے میزان میں اس کا ذکر نہیں ہے۔ اور قتادہ ابن دعامہ اگرچہ وہ مدلس ہے۔ لیکن اس کے ساتھ سب اصحاب صحاح نے اجماع کیا ہے۔ میزان میں ہے۔ احتج بہ اصحاب الصحاح والاسیما اذا قال حدثنا اور حافظ نے فتح الباری میں اس حدیث ابی داؤد کو صحیح کہا ہے۔