حدثہم ان رسول اﷲﷺ قال ما علے الارض مسلم یدعوا اﷲ تعالیٰ بدعوۃ الا اٰتاہ اﷲ ایاہا او صرف عنہ من السوء مثلہا ما لم یدع بماثم اوقطعیۃ رحم فقال رجل من القوم اذا تکثر قال اﷲ اکثر وہذا حدیث حسن غریب صحیح من ہذا الوجہ‘‘ پس عبدالرحمن بن ثابت بن ثوبان کی حدیث ترمذی کے شرط پر ضرور صحیح ہے اور سوائے مکحول شامی کے کہ یہ بھی مختلف فیہ ہے۔ اس کی توثیق کے لئے یہی کافی ہے کہ یہ رجال مسلم سے ہے اور اس کی غیر واحد نے توثیق کی ہے۔ میزان میں ہے۔ ’’وثقہ غیر واحد وقال ابن سعد ضعفہ جماعۃ قلت ہو صاحب تدلیس وقدرمی بالقدر فاﷲ اعلم یروی بالارسال عن ابی وعبادۃ بن الصامت وعائشۃ وابی ہریرۃ وروی عن واثلۃ وابی امامۃ وعدۃ وعنہ ثوربن یزید والاوزاعی لم یبلغنا ان احدا من التابعین تکلم فی القدر الاالحسن ومکحول فکشفنا عن ذلک فاذا ہو باطل‘‘
اس عبارت سے معلوم ہوا کہ مکحول میں تین جرحین ہیں۔ اوّل یہ کہ وہ مدلس ہے۔ دوم یہ کہ قدر کے ساتھ متہم کیاگیا ہے۔ سوم یہ کہ کثیر الارسال عن الصحابہ ہے۔ جرح اخیر تو اس حدیث میں ساقط ہے۔ اس لئے کہ یہاں صحابی سے روایت نہیں کرتا ہے۔ بلکہ جبیر بن نفیر سے اور جرح دوم یحییٰ بن معین واوزاعی کے کلام سے باطل ہوگئی۔ رہی جرح تدلیس پس یہ جرح سوائے میزان کے کسی کتاب میں دیکھنے میں نہیں آئی۔ نہ تقریب میں نہ کاشف میں نہ خلاصہ میں۔
’’حدیث عبادہ بن الصامت فلا تفعلوا الا بفاتحۃ الکتاب فانہ لا صلوۃ لمن لم یقراہا‘‘ میں مکحول واقع ہے اور وہ محمود بن الربیع سے ساتھ لفظ عن کے روایت کرتا ہے اور بخاری نے جزء القراء ۃ میں اس کی تصحیح کی ہے۔ تلخیص الجبیر میں ہے۔ ’’احمد والبخاری فی جزء القرأۃ وصححہ وابوداؤد والترمذی والدار قطنی وابن حبان والحاکم والبیہقی من طریق ابن اسحاق حدثنی مکحول عن محمود بن الربیع عن عبادۃ وتابعہ زید بن واقد وغیرہ عن مکحول‘‘ بیہقی نے بھی تصحیح کی ہے۔ ’’قال البیہقی ورواہ ابراہیم بن سعد عن محمد بن اسحق فذکر فیہ سماع ابن اسحق من مکحول فصار الحدیث موصولا صحیحاً‘‘ اہل حدیث اس حدیث میں علت تدلیس ابن اسحاق کی بیان کرتے ہیں اور اس کا جواب اس طرح دیتے ہیں کہ دوسری روایت میں تحدیث کی تصریح ہے۔ ایک بھی تدلیس مکحول کی بیان نہیں کرتا ہے۔ نیل