الاوطار میں ہے۔ ’’ومحمد بن اسحق قد صرح بالتحدیث فذہب مظنۃ تدلیسہ‘‘ تخریج احادیث وسیط میں ہے۔ ’’وھو حدیث صحیح رواہ ابوداؤد والترمذی ودارقطنی وابن حبان والحاکم والبیہقی من روایت عبادۃ العاست قال الترمذی حسن وقال الدار قطنی اسنادہ حسن ورجالہ ثقات وقال الخطابی اسنادہ جید لا مطعن فیہ وقال الحاکم اسنادہ مستقیم وقال البیہقی صحیح قلت ولا یضرکون عنعنۃ ابن اسحق فی بعض اسانیدہ فقد صرح فی بعضہا بالتحدیث فزال المحذور‘‘ ترمذی نے حدیث مکحول کی تصحیح کی ہے۔ باب ’’ماجاء فی سجدتی السہو‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’حدثنا محمد بن بشارنا محمد بن خالد بن غنمۃ نا ابراہیم بن سعد قال حدثنی محمدبن اسحق عن مکحول عن کریب عن ابن عباس عن عبدالرحمن بن عوف قال سمعت النبیﷺ یقول اذا سہا احدکم فی صلوٰتہ الحدیث قال ابوعیسیٰ ہذا حدیث حسن صحیح‘‘ جب کہ بخاری وترمذی وبیہقی مکحول کا عنعنہ قبول کرتے ہیں اور حدیث عبادہ مذکور میں کوئی شخض تدلیس مکحول کو علت قرار نہیں دیتا ہے تو یہ امر اوّل دلیل ہے۔ اس پر کہ مکحول ان مدلسین میں سے نہیں ہے کہ جن کا عنعنہ معتبر نہ ہو اور یہ حدیث بھی ترتیب مذکور پر دال ہے۔ ’’عن عبداﷲ بن بسران رسول اﷲﷺ قال بین الملحمۃ وفتح المدینۃ ست سنین ویخرج الدجال فی السابعۃ رواہ ابوداؤد وقال ہذا اصح‘‘ مخفی نہ رہے کہ شہر قسطنطنیہ ابھی تک بفضل اﷲ تعالیٰ اہل اسلام کے قبضہ میں ہے۔ ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ کفار کے قبضہ میں آجائے گا۔ اس کے بعد ملحمہ کبریٰ واقع ہوگا۔ اس کے بعد فتح قسطنطنیہ ہوگی۔ اس کے بعد خروج دجال ہوگا۔ اس کے بعد مسیح موعود تشریف لائیںگے۔ مرزاقادیانی جو مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور ابھی تک وقائع مذکورہ وقوع میں نہیں آئے تو یہ امر اوّل دلیل ہے۔ مرزاقادیانی کے کاذب ہونے پر۔
دلیل اوّل، دوم، سوم، چہارم، پنجم، ششم حدیث نواس بن سمعان ہے جو صحیح مسلم میں مروی ہے۔
’’وعن النواس بن سمعان قال ذکر رسول اﷲﷺ الدجال وقال ان یخرج وانا فیکم فانا حجیجہ دونکم وان یخرج ولست فیکم فامر حجیج نفسہ واﷲ خلیفتی علی کل مسلم انہ شاب قطط عینہ طافئۃ کانی اشبہہ