اگر کہا جاوے کہ توفی اس وقت عین رفع ہوئی تو قول اﷲ تعالیٰ کا ورافعک تکرار ہوگا تو جواب اس کا یہ ہے کہ توفی کا لفظ چونکہ بمعنی موت ونوم بھی آتا ہے۔ اس لئے لفظ رافعک سے تعیین مراد مقصود ہے۔ اب تکرار نہ ہوئی۔ جیسا کہ آیت ’’ثم بعثناکم من بعد موتکم‘‘ میں بعث کو موت کے ساتھ مقید کیا ہے۔ اس لئے کہ بعث اغماء ونوم سے بھی ہوتا ہے اور جیسا کہ ’’حتیٰ یتوفہن الموت (نسائ:۱۵)‘‘ میں موت کا لفظ تعیین مراد کے لئے چوتھی دلیل سورۂ مائدہ کی یہ آیت ہے۔ ’’وکنت علیہم شہیداً مادمت فیہم فلما توفیتنی کنت انت الرقیب علیہم (مائدہ:۱۱۷)‘‘
ترجمہ شاہ ولی اﷲ صاحبؒ: ’’وبودم برایشان نگاہبان ماداسیکہ درمیان ایشان بودم پس وقتیکہ برگرفتی مراتوبودی نگہبان برایشان۔‘‘
فائدہ میں لکھتے ہیں: ’’یعنی برآسمان بردی۔‘‘
ترجمہ شاہ رفیع الدین صاحبؒ: ’’اور تھا میں اوپر ان کے شاہد جب تک رہا میں بیچ ان کے۔ پس جب قبض کیا تونے مجھ کو تھا تو ہی نگہبان اوپر ان کے۔‘‘
ترجمہ شاہ عبدالقادر صاحبؒ: ’’اور میں ان سے خبردار تھا۔ جب تک ان میں رہا پھر جب تو نے مجھے بھر لیا تو تو ہی تھا خبر رکھتا ان کی۔‘‘
وجہ استدلال وہی ہے جو اوپر کی آیت میں گزری۔ یعنی معنی حقیقی توفی کے اخذ الشیٔ وافیاً ہیں اور صرف حقیقت سے مجاز کی طرف بغیر صارف کے جائز نہیں اور صارف یہاں موجود نہیں ہے۔ بلکہ ایک لفظ تعیین مراد کرنے والا۔ یعنی رافعک آیت سابقہ میں موجود ہے۔ مخفی نہ رہے کہ حق تعالیٰ نے آیت ’’انی متوفیک ورافعک الیّ‘‘ میں توفی ورفع کو جمع کیا ہے اور ’’بل رفعہ اﷲ الیہ‘‘ میں رفع پر قصر کیا ہے اور ’’فلما توفیتنی‘‘ میں توفی پر قصر کیا ہے۔ اس میں اشارہ ہے۔ اس طرف کہ توفی ورفع ایک چیز ہے۔ مقصود زیادت لفظ رفع سے صرف تعیین مراد ہے۔ یہ آیت بھی قطیعۃ الدلالۃ ہے۔ حیات مسیح علیہ السلام پر مرزاقادیانی اور ان کے اتباع اس آیت کو بھی قطیعۃ الدلالۃ وفات پر سمجھتے ہیں۔ مگر اﷲتعالیٰ نے محض اپنی رحمت سے اس آیت کا قطیعۃ الدلالۃ حیات پر ہونا اس ہیچمدان پر ظاہر فرمایا۔ الحمد اﷲ علیٰ ذالک!
پانچویں دلیل: سورۂ آل عمران کی یہ آیت ہے۔ ’’ویکلم الناس فی المہد وکہلا ومن الصالحین (آل عمران:۴۶)‘‘