ترجمہ شاہ ولی اﷲ صاحبؒ: ’’وسخن گوید بامردمان درگہوارہ ووقت معمری وباشد از شائستگان۔‘‘
ترجمہ شاہ رفیع الدین صاحبؒ: ’’اور باتیں کرے گا لوگوں سے بیچ جھولے کے اور ادھیڑ اور صالحون سے ہے۔‘‘
ترجمہ شاہ عبدالقادر صاحبؒ: ’’اور باتیں کرے گا لوگوں سے جب ماں کی گود میں ہوگا اور جب پوری عمر کا ہوگا اور نیک بختوں میں سے۔‘‘
وجہ استدلال یہ ہے کہ اصل سن کہولت میں اختلاف ہے۔ بعض کے نزدیک تیس ہے اور بعض کے نزدیک بتیس اور بعض کے نزدیک تینتیس اور بعض کے نزدیک چالیس قسطلانی نے شرح صحیح بخاری میں لکھا ہے: ’’وقال فی اللباب الکہل من بلغ من الکہولۃ واولہا ثلثون اواثنتان وثلثون اوثلث وثلثون اواربعون وآخرہا خمسون اوستون ثم یدخل فی سن الشیخوخۃ‘‘
شیخ زادہ حاشیہ بیضاوی میں لکھتا ہے۔ ’’واوّل اسن الکہولۃ ثلثون وقیل اثنان وثلثون وقیل اربعون وآخر سنہا خمسون وقیل ستون ثم یدخل الانسان فی سن الشیوخۃ‘‘ اور ہم مامور ہیں۔ اس بات کے ساتھ کہ جب اختلاف ہو تو اﷲ اور اﷲ کے رسول کی طرف رد کریں۔ قال اﷲ تعالیٰ ’’فان تنازعتم فی شیٔ فردوہ الیٰ اﷲ والرسول‘‘ موافق اس کے اب ہم رجوع حدیث کی طرف کرتے ہیں تو حدیث ابوہریرہؓ میں اہل جنت کے حق میں آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ ’’لا یفنی شبابہ‘‘ رواہ مسلم اور حدیث ابوسعید وابوہریرہؓ میں ہے کہ حضرت نے فرمایا کہ ایک ندا کرنے والا ندا کرے گا۔ ’’ان لکم ان تشبوا فلاتہرموا ابدا‘‘ رواہ مسلم اور اس باب میں احادیث بکثرت ہیں۔ یہاں سے ثابت ہوا کہ اہل جنت کا شباب کہی زائل نہ ہوگا اور حدیث سے یہ بھی ثابت ہے کہ تینتیس برس کی عمر کے ہوں گے اور یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام تینتیس برس کی عمر میں اٹھائے گئے۔ اس کے ثبوت کے لئے تفسیر ابن کثیر کی یہ عبارت کافی ہے۔ ’’فانہ رفع ولہ ثلث وثلثون سنۃ فی الصحیح وقدورد فی حدیث فی صفۃ اہل الجنۃ انہم علی صورۃ آدم ومیلاد عیسیٰ ثلث وثلثین سنۃ‘‘
اور نیز تفسیر ابن کثیر میں سورۂ واقعہ کی تفسیر میں تحت آیت کریمہ ’’اترا بالاصحب