یوں ہونی چاہئے۔ وھو منکم! اور وضع مظہر موضع مضمر کے خلاف ظاہر ہے اور صرف نص کا ظاہر سے بغیر صارف قطعی جائز نہیں ہے۔
چہارم… روایتوں میں مسلم کی ایسے معنی بھی ہوسکتے ہیںَ جس سے غیر مسیح بن مریم کا امام ہونا پایا جاتا ہے۔
پنجم… مسلم کی روایتوں میں وہم کا ہونا ہم نے ثابت کر دیا۔ وقد فصل انفا!
ششم… حدیث جابر جو مسلم میں ہے اور اعلیٰ درجہ کی صحیح ہے۔ اس نے فیصلہ کر دیا کہ امام غیر مسیح بن مریم ہوگا۔
قولہ… ’’صحیح مسلم میں اسانید متعددہ سے ثابت کردیا کہ امامکم منکم کے معنی یہ ہیں کہ فامکم منکم بالکتاب ربکم تبارک وتعالیٰ وسنۃ نبیکم!‘‘
اقول… اس میں کلام ہے۔ بچند وجوہ!
اوّل… مسلم نے ایک سند کے بھی یہ معنی نہیں بیان کئے جو آپ نے لکھے ہیںَ آپ نے لفظ منکم زیادہ کر دیا ہے۔ لفظ مسلم کا یہ ہے۔ ’’قال ابن ابی ذئب تدرے ما امکم منکم قلت تخبرنی قال فامکم بکتاب ربکم تبارک وتعالیٰ وسنۃ نبیکمﷺ‘‘ اس جگہ زیادت لفظ منکم خطاء بیّن ہے۔ کیونکہ ’’بکتاب ربکم تبارک وتعالیٰ وسنۃ نبیکم‘‘ تفسیر منکم کی ہے۔ پس جمع بین المفسر والمفسر لازم آتا ہے۔ مطلب ابن ابی ذئب کا یہ ہے۔ ’’امکم منکم‘‘ کے معنی یہ کہ ابن مریم تمہاری امامت کرے گا۔ تم میں سے ہو کر یعنی تمہارے دین میں ہوکر نہ بحیثیت نبوت، اور تمہارے دین میں ہو کر امامت کرنے کے معنی یہی ہیں کہ کتاب وسنت کے ساتھ امامت کرے گا۔
دوم… مسلم نے معنی مذکور ایک سند سے بیان کئے ہیں۔ نہ اسانید متعددہ سے پس اطلاق لفظ جمع کا یہاں پر کسی طرح صحیح نہیں ہوسکتا۔
سوم… یہ معنی صرف ابن ابی ذئب کا جو ایک تبع تابعین سے ہے۔ فہم ہے۔ نہ حدیث مرفوع اور جب فہم صحابہ کا حجت نہیں ہے تو تبع تابعی کا فہم کس طرح حجت ہوسکتا ہے۔ خاص کر جب حدیث صحیح جابرؓ کی اس کی معارض موجود ہے۔
چہارم… برتقدیر تسلیم اس معنی کے جو ابن ابی ذئب نے بیان کئے ہیں۔ بھی آپ کا مطلب حاصل نہیں ہوتا ہے۔ کیونکہ آپ کا مدعا تو یہ ہے کہ ابن مریم جو نبی بنی اسرائیل تھے۔ نہیں آویں گے بلکہ امت محمدیہ میں سے ان کا ایک مثیل آوے گا اور ابن ابی ذئب کے معنی سے یہ ثابت ہوتا