ہواحب الیٰ من ابن عقیل ومن عاصم بن عبداﷲ قال ابو حاتم یکتب حدیثہ ہو احب الیٰ من یزید بن ابی زیاد قال الترمذی صدوق وقال الدار قطنی لا یترک عندی فیہ لین‘‘
تہذیب میں ہے۔ ’’قال یعقوب بن شیبۃ ثقۃ ذہبی ذکر من عرف بابیہ‘‘ میں لکھتے ہیں۔ ’’ابن جدعان میں صغار التابعین ہو علی بن زید جدعان بصری صویلہ‘‘ حافظ عبدالعظیم منذری ترغیب وترہیب میں لکھتے ہیں۔ ’’وصحح الترمذی لہ حدیث ما فی السلام وحسن لہ غیر ما حدیث‘‘ کاشف میں ہے۔ ’’احد الحفاظ بالبصرۃ‘‘ بالجملہ حدیث علی بن زید بن جدعان کی حسن ہے۔ علی شرط الترمذی خصوصاً تائید کے لئے کافی ہونے میں تو کلام نہیں۔
قولہ… ’’اور متعدد اسانید سے فیصلہ قطعی کر دیا کہ ’’امامکم منکم‘‘ اسی مسیح بن مریم کی صفت واقع ہوئی ہے۔ یا اس سے حال واقع ہوا ہے۔‘‘
اقول… اس میں کلام ہے،۔ بچند وجوہ!اوّل… یہ کہ ’’امامکم منکم‘‘ کو جو آپ صفت مسیح بن مریم کی لکھتے ہیں تو اس سے اگر یہ مطلب ہے کہ جملہ بن کر یہ صفت مسیح بن مریم کی واقع ہوا ہے تو صریح غلط ہے۔ کیونکہ ابن مریم معرفہ ہے اور جملہ حکم میں نکرہ کے ہوتا ہے۔ پس مطابقت موصوف وصفت کی درمیان نہ پائی گئی اور اگر یہ مطلب ہے کہ ’’وامامکم منکم‘‘ بغیر جملہ بنائے صفت واقع ہے تو اس میں یہ قباحت ہے کہ موصوف وصفت کے درمیان میں واو نہیں آتا ہے اور یہاں واو موجود ہے اور اگرآپ کو شرح جامی کی اس عبارت سے دھوکا ہوا ہے کہ جو اس نے قیل کے لفظ سے نقل کی ہے کہ زمخشری نے وقوع واو کا درمیان موصوف صفت کے تجویز کیا ہے تو اس کا جواب جب آپ اسے پیش کریں گے۔ انشاء اﷲ تعالیٰ اس وقت ایسا دیا جائے گا جس سے آپ کو اپنے فہم کی قلعی کھل جائے گی۔
دوم… ’’امامکم منکم‘‘ کا مسیح بن مریم سے حال ہونا اس پر موقوف نہیں ہے کہ مسیح بن مریم جو آنے والا ہے وہ اس امت میں سے ایک امام ہو۔ بلکہ ’’امامکم منکم‘‘ مسیح بن مریم سے اس وقت بھی حال ہوسکتا ہے کہ ’’امامکم منکم‘‘ میں جو امام ہے وہ سوائے مسیح ابن مریم کے کوئی اور ہو اور یہ شبہ کہ رابطہ یہاں نہیں ہے۔ اس کا جواب اوپر گزرا فتذکر۔
سوم… آپ کے معنی پر جب امامکم منکم کو مسیح بن مریم سے حال کہا جائے گا تو صرف نص کا ظاہر سے لازم آئے گا۔ کیونکہ وضع مظہر موضع مضمر کا قائل ہونا پڑے گا۔ اس تقریر پر اصل عبارت