الزہری صحیح قال ابن میدی وکذا اقول‘‘
سوم… یہ کہ عقیل واوزاعی ومعمر وابن ذئب نے ایک روایت میں یونس کی متابعت کی ہے۔ صحیح بخاری میں ہے۔ تابعہ عقیل والاوزاعی اور متابعت معمر وابن ابی ذئب کی روایت امام احمد سے سابق ثابت ہوچکی فتذکر!
وجہ دوم… وجوہ اصل سے یہ ہے کہ تیسری روایت کے موافق ایسے معنی اس حدیث کے ہوسکتے ہیں کہ جس کی بنا پر مسیح بن مریم کے غیر کا امام ہونا ثابت ہوتا ہے۔ کیونکہ اس وقت ہم کہہ سکتے ہیں کہ من بمعنی بعض کے ہے اور وہ ام کا فاعل واقع ہوا ہے۔ یا من تبیین کا ہے اور فاعل اس کا بسبب قائم ہونے لفظ منکم کے مقام اس کے محذوف ہے۔ جیسا کہ جمہور نحاۃ نے ’’قد کان من مطر‘‘ میں تاویل کی ہے۔ ’’اے قام بعضکم اواحد منکم‘‘ اگر کہا جاوے کہ حذف فاعل جمہور کے نزدیک جائز نہیں ہے تو جواب یہ ہے کہ یہ عدم جواز مقید ہے۔ ساتھ نہ قائم ہونے کسی شے کے مقام فاعل کے اور جب فاعل کے مقام پر کوئی چیز قائم ہو تو بالاتفاق حذف فاعل جائز ہے۔ فوائد ضیائیہ میں بحث تنازع میں ہے۔ ’’دون الحذف لانہ لا یجوز حذف الفاعل الا اذا سدشیٔ مسدہ‘‘ اور یہ بھی ممکن ہے کہ لفظ ام اس روایت میں صیغہ فعل ماضی کا نہ ہو۔ بلکہ ام بالضم اسم ہو اور وہ بمعنی امام لغت میں آیا ہے۔ قاموس میں ہے۔ ’’والامۃ بکسر الحالۃ والشرعۃ والذین وبضم والنعمۃ والہیئۃ والشان وغضارۃ العیش والسنۃ وتضم والطریقۃ والامامۃ والایتمام بالامام وبالضم الرجل الجامع للخیر والامام وجماعۃ ارسل الیہم رسول والجیل من کل حی والجنس کالام فیہا‘‘ اور بھی قاموس میں ہے۔ ’’وام کل شیٔ اصلہ وعمادہ وللقوم رئیسہم‘‘ اور بھی اسی میں ہے۔ ’’وام القری مکۃ لانہا توسطت الارض فیما زعموا ولا نہا قبلۃ الناس یؤموا‘‘ اور مؤید اس کی یہ بات ہے کہ برتقدیر فعل ماضی لفظ منکم بعد امکم کے محض بے ربط ہوتا ہے۔ اس وقت فصیح عبارت یہ تھی۔ ’’کیف انتم اذا نزل فیکم ابن مریم منکم فامکم‘‘ اور یہ دونوں تاویلیں دوسری روایت میں بھی ہوسکتی ہیں۔ اس لئے کہ بقرینہ تیسری روایت کے دوسرے میں بھی لفظ منکم مقدر مانا جائے گا۔ اب اس بیان کے موافق مطلب ان روایتوں کا بھی وہی ہوگا۔ جو ’’امامکم منکم‘‘ سے ظاہر ہے۔ پس ان روایتوں سے ابطال اس معنی کا جس کے ابطال کے آپ درپے تھے۔ حاصل نہ ہوا۔ رہی روایت ابن عینیہ کی سو بعد تسلیم اس کی صحت کے وہ منافی امامت غیر عیسیٰ بن مریم کے نہیں ہے۔ کیونکہ روایت ابن عینیہ میں جو لفظ