رواوی کے ہیں یا محمد بن حاتم بن میمون کے غالباً بخاری اپنی صحیح میں اسی واسطے اس روایت کو نہیں لایا ہے۔
اور تیسری روایت میں یہ جرح ہے کہ اس کا راوی محمد بن عبدالرحمن بن ابی ذئب زہری میں ضعیف ہے۔ ’’قال الحافظ فی المقدمۃ قال ابن المدینے کانوا یوہنونہ فی الزہری وکذا وثقہ احمد ولم یرضہ فی الزہری وحدیثہ عن الزہری فی المتابعات‘‘ اور یہاں زہری سے روایت کرتا ہے مخالف ثقات کے تو ثابت ہوا کہ اس سے اس روایت میں دو وہم ہوگئے ہیں۔
اوّل… بجائے واو کے فالایا ہے۔ دوم ’’امامکم‘‘ کی جگہ ’’امکم‘‘ کہا ہے۔ علاوہ اس کے ابن ابی ذئب کی روایت میں اضطراب ہے۔ ایک روایت میں ابن ابی ذئب نے بھی ’’وامامکم منکم‘‘ موافق جمہور کے کہا ہے۔ تفسیر ابن کثیر میں بعد نقل روایت یونس کے لکھا ہے۔ ’’وہکذا رواہ الامام احمد عن عبدالرزاق عن معمر وعن عثمان بن عمر عن ابن ابی ذئب کلاہما عن الزہری بہ‘‘ اگر کوئی کہے کہ صحیح مسلم کی روایت میں وہم وخطاء کا ہونا محل استبعاد ہے تو جواب یہ ہے کہ وہم وخطاء تو بخاری میں بھی واقع ہوا ہے۔ یہ کچھ محل استعباد نہیں۔ بخاری ومسلم کے رواۃ اعلیٰ درجہ کے ثقات ہیں۔ مگر وہم وخطاء سے معصوم نہیں ہیں اور ضابطہ وہم وخطاء کی شناخت کا یہی ہے کہ وہ روایت مخالف ہو جمہور ثقات اثبات کے۔
مخفی نہ رہے کہ روایت ’’وامامکم منکم‘‘ کو ان دونوں روایتوں پر ترجیح ہے۔ بچند وجوہ!
اوّل… تو یہ لفظ متفق علیہ ہے۔ بخاری ومسلم دونوں نے روایت کیا ہے اور علماء نے اتفاق کیا ہے۔ اس پر کہ اصح الاحادیث اتفاقا علیہ ہے۔
دوم… یہ کہ یہاں زہری سے یونس روایت کرتا ہے اور یونس زہری میں اثبت الناس ہے۔ حافظ مقدمہ میں لکھتے ہیں۔ ’’قال ابن ابی حاتم عن عباس الدوری قال قال ابن معین اثبت الناس فی الزہری مالک ومعمر ویونس وعقیل وشعیب وقال عثمان الدارمی عن احمد بن صالح نحن لا نقدم علیٰ یونس فی الزہری احدا قال وسمعت احمد بن حنبل یقول سمعت احادیث یونس عن الزہری فوجدت الحدیث الواحد ربما سمعہ مراراً وکان الزہری اذا قدم ایلۃ ینزل علیہ وقال علی بن المدینی عن ابن مہدی کان ابن المبارک یقول کتابہ عن