سفیان بن عینیۃ اکثر من عشرین حدیثا‘‘ اور خطا مخالفت ثقات اثبات سے ثابت ہوتی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ لفظ ’’اماماً‘‘ میں اس نے خطا کی ہے اور موضع استدلال یہی لفظ ہے۔ دوسری روایت میں دو جرحیں ہیں۔
اوّل… یہ کہ مسلم نے اس حدیث کو محمد بن حاتم بن میمون سے روایت کیا ہے۔ اس میں بہت کلام ہے۔ یہاں تک کہ بعض نے کذاب لکھاہے۔ ذہبی میزان میں لکھتے ہیں: ’’قال الفلاس لیس بشیٔ وقال یحیے وابن المدینی ہوکذاب انتہے ملخصا‘‘ تقریب میں ہے۔ ’’ربما وہم‘‘ دارقطنی وغیرہ نے اس کی توثیق کی ہے۔ قول فیصل اس میں وہ ہے جو حافظ نے تقریب میں لکھا ہے۔ یعنی صدوق صاحب اوہام ہے۔ اس حدیث کی روایت میں جو تین اوہام ہیں یا تو اس راوی سے ہوئے ہیں یا ابن اخی الزہری سے وہ تین اوہام یہ ہیں۔ اوّل بجائے واو کے فالایا ہے۔ دوسرے بجائے امامکم کے امکم کہا ہے۔ تیسرے لفظ منکم کو حذف کر دیا ہے۔ دوسری جرح اس سند میں یہ ہے کہ راوی اس میں ابن اخی الزہری ہے۔ نام اس کا محمد بن عبداﷲ بن مسلم ہے۔ ذہبی میزان میں لکھتے ہیں۔ ’’قال ابن معین وابو حاتم لیس بالقوی وفی روایۃ الدارمی عن ابن معین ضعیف وجعلہ محمد بن یحییٰ الذہلی فی اصحاب الزہری مع اسامۃ بن زید اللیشی وابن اسحق وفلیح‘‘ حافظ مقدمہ فتح الباری میں لکھتے ہیں۔ ’’ذکرہ محمد بن یحییٰ الزہلی فی الطبقۃ الثانیۃ من اصحاب الزہری مع محمد بن اسحق وفلیح وقال انہ وجدلہ ثلاثۃ احادیث لا اصل لہا احدہا حدیثہ عن عمر عن سالم عن ابی ہریرۃ مرفوعا کل امتی معافی الا المجاہرین ثانیہا بہذا الاسناد کان اذا خطب قال کل ماہوات قریب موقوف ثالثہا عن امرأتہ ام الحجاج بنت الزہری عن ابیہا ان النبیﷺ کان یا کل بکفہ کلہا مرسل وقال الساجی تفرد عن عمر باحادیث لم یتابع علیہا کانہ یعنی ہذہ‘‘ اور حافظ نے مقدمہ میں تین احادیث بخاری کی ذکر کی ہیں۔ جن میں یہ راوی واقع ہوا ہے اور ہر ایک میں متابعث ثابت کی ہے اور اس کے بعد کہا ہے۔ ’’ولہ عندہ غیر ہذہ مما توبع علیہ موصولاً ومعلقاً‘‘ اس کی ایک جماعت نے توثیق بھی کی ہے۔ اعدل الاقوال اس کے باب میں وہ ہے جو حافظ نے تقریب میں لکھا ہے۔۔ صدوق لہ اوہام عبارت مذکورہ سے واضح ہوا کہ تفرد اس کا مقبول نہیں ہے اور روایت مذکورہ کے ساتھ یہ متفرد ہوا ہے۔ تین اوہام اس روایت میں ہیں۔ ’’کما مر آنفا‘‘ یہ تینوں اوہام یا تو اسی