اس کا جواب سن لیجئے کہ یہ وجہ مبنی ہے۔ قواعد نحو سے ذہول پر مختصرات نحو میں یہ مسئلہ لکھا ہے کہ جب جملہ اسمیہ حال واقع ہو تو رابطہ اس میں یاواو اور ضمیر دونوں ہوتے ہیں یا فقط واو اور فقط ضمیر کا رابطہ ہونا ضعیف ہے۔ یہاں اگرچہ ضمیر نہیں ہے۔ لیکن واو موجود ہے۔ اس کے شواہد بہت ہیں۔ حدیث جابرؓ متفق علیہ میں ہے۔ ’’کان یصلے الظہر بالہاجرۃ والعصر والشمس حیۃ‘‘ اور اثر حضرت عمرؓ میں ہے۔ ’’والصبح والنجوم بادیۃ مشتکبۃ رواہ مالک وعن ابی ہریرۃ قال قالوا یا رسول اﷲ متے وجبت لک النبوۃ قال واٰدم بین الروح والجسد رواہ الترمذی‘‘ اور اگر فرض کیا جاوے کہ ضمیر کا ہونا ضرور ہے تو بھی ترکیب درست ہوسکتی ہے۔ اس لئے کہ ہو سکتا ہے کہ جملہ ’’وامامکم منکم‘‘ ابن مریم سے حال نہ ہو۔ بلکہ فیکم کی ضمیر مجرور سے حال ہو۔
قولہ… ’’دوم صحیح مسلم میں اس احتمال کو باطل کر دیا ہے۔‘‘
اقول… اس میں کلام ہے۔ پچند وجوہ
اوّل… یہ کہ مسلم کی روایات جن کو مبطل اس احتمال کا آپ نے تصور فرمایا ہے۔ وہ تین ہیں ایک روایت ابن عینیہ کی جس میں لفظ اماما مقسطاً کاوارد ہوا ہے۔ دوسری روایت ابن اخی الزہری کی جس کا لفظ یہ ہے۔ ’’کیف انتم اذا نزل ابن مریم فیکم فامکم‘‘ تیسری روایت ابن ابی ذئب کی جس کا لفظ یہ ہے۔ ’’کیف انتم اذا نزل فیکم ابن مریم فامکم منکم‘‘ پہلی روایت میں یہ جرح ہے کہ سفیان بن عینیہ نے دیگر ثقات کے خلاف ’’اماماً‘‘ کا لفظ زہری سے روایت کیا ہے۔ لیث ویونس وصالح بن کیسان کی روایت میں یہ لفظ نہیں ہے۔ جیسا کہ صحیح مسلم سے ظاہر ہے اور محمد بن ابی جعفر کی روایت میں بھی یہ لفظ نہیں ہے۔ تفسیر ابن کثیر میں ہے۔ ’’ورواہ ابن مردویہ من طریق محمد بن ابی حفصۃ عن الزہری عن سعید بن المسیب عن ابی ہریرۃؓ قال قال رسول اﷲﷺ یوشک ان ینزل فیکم ابن مریم حکما عدلا‘‘ اور لیث نے غیر زہری یعنی سعید بن ابی سعید سے جو اس حدیث کی روایت کی ہے۔ اس میں بھی لفظ ’’اماماً‘‘ نہیں ہے۔ مسلم میں ہے۔ ’’وحدثنیہ قتیبۃ بن سعید ثنالیث عن سعید بن ابی سعید عن عطاء بن میناء عن ابی ہریرۃ انہ قال قال رسول اﷲﷺ واﷲ لینزلن ابن مریم حکما عدلاً‘‘ رجال اس روایت کے رجال شیخین ہیںَ سفیان بن عینیہ اگرچہ ثقات اعلام میں سے ہے۔ مگر مخطی ہے۔ بیس سے زیادہ حدیثوں میں خطا کی ہے۔ میزان میں ہے۔ ’’قال احمد فرجعت فاذا ما اخطا فیہ