صرف اس امت میں سے ایک امام ہونا وہ تقریر مذکور سے ثابت نہیں ہوتا ہے۔
پنجم… وہ حدیث جس سے آپ اپنے زعم میں یہ ثابت کرتے ہیں کہ مسیح بن مریم جو آنے والا ہے۔ وہ اس امت میں سے ایک امام ہوگا۔ وہ صرف ایک حدیث ہے۔ یعنی ’’حدیث الزہری عن نافع مولیٰ ابی قتادۃ عن ابے ہریرۃ‘‘ جس میں لفظ ’’وامامکم منکم‘‘ یا ’’فامکم منکم‘‘ وارد ہے۔ پس ایرا دلفظ احادیث متفق علیہ کہ لفظ جمع ہے کوئی وجہ صحت نہیں رکھتا ہے۔ اگر کہا جائے کہ چونکہ یہ حدیث تین طرق سے مروی ہے۔ ایک وہ جس میں یونس زہری سے دوسرا وہ طریق جس میں ابن اخی الزہری زہری سے روایت کرتا ہے۔ تیسرا وہ طریق جس میں ابن ابی ذئب زہری سے روایت کرتا ہے۔ چنانچہ یہ سب طرق صحیح مسلم میں مذکور ہیں۔ پس باعتبار تعدد طرق کے اس حدیث پر اطلاق لفظ جمع درست ہوا تو جواب اس کا بسہ وجوہ ہے۔
اوّل… یہ کہ حدیث بدلتی ہے صحابی کے یا اصل مضمون کے بدلنے سے اور یہاں صحابی اور اصل مضمون ایک ہے۔
دوم… اس تاویل پر متفق علیہ کہنا صحیح نہیں ہوتا ہے۔ کیونکہ متفق علیہ صرف طریق یونس ہے نہ طریق ابن اخی الزہری اور نہ طریق ابن ابی ذئب یہ دونوں طریق تو صرف صحیح مسلم میں ہیں۔ نہ صحیح بخاری میں۔
سوم… دوسرے طریق میں لفظ ’’منکم‘‘ نہیں ہے۔ اس لئے وہ آپ کے لئے کچھ مفید نہیں ہے۔
اگر کہا جاوے کہ ایک حدیث اور ہے جس میں لفظ ’’اماماً‘‘ آیا ہے۔ یعنی ’’حدیث الزہری عن ابن المسیب انہ سمع اباہریرۃ یقول قال رسول اﷲﷺ والذی نفسی بیدہ لیوشکن ان ینزل فیکم ابن مریم‘‘ ابن عینیہ کی روایت میں اس حدیث میں لفظ ’’اماما مقسطاً وحکماً عدلاً‘‘ آیا ہے کما فی صحیح مسلم تو جواب یہ ہے کہ اوّل توروایت ابن عینیہ متفق علیہ نہیں ہے۔ دوم لفظ منکم یہاں نہیں ہے۔ جس سے آپ کا مدعا حاصل ہو۔
قولہ… ’’اوّل تو یہ احتمال کسی ترکیب نحوی سے درست نہیں ہوسکتا۔‘‘
اقول… آپ نے وجہ عدم صحت ترکیب نحوی کی ارشاد نہیں فرمائی۔ اس کو ارشاد کیجئے۔ تاکہ اس میں نظر کی جاوے۔ اس وقت جو اس عاجز کے ذہن میں وجہ آتی ہے۔ وہ یہ ہے کہ آپ یہ سمجھے ہیں کہ ’’وامامکم منکم‘‘ میں اگر مراد امام سے غیر مسیح بن مریم لیا جاوے گا تو حال ذوالحال میں رابطہ نہ پایا جائے گا۔ بخلاف اس کے کہ مراد امام سے مسیح بن مریم ہو تو اس صورت میں وضع مظہر کا موضع مضمر کے ہوگا۔ پس لفظ ’’امامکم‘‘ بجائے ’’ھو‘‘ کے تو رابطہ موجود ہوگا۔ اگر یہی وجہ ہے تو