ہونا شان نبوت کے، یہ تو آپ لوگوں کا سراسر جہل یا تجاہل ہے۔ امامت کا شان نبوت کے منافی نہ ہونا تو اس لئے کہ فرمایا اﷲتعالیٰ نے ابراہیم خلیل اﷲ کو علیہ الصلوٰۃ والسلام ’’انی جاعلک للناس اماماً‘‘ میں بناؤں گا تجھ کو سب لوگوں کا امام۔
اور امتی ہونا شان نبوت کے اس لئے منافی نہیں ہے کہ فرمایا اﷲتعالیٰ نے سورۂ آل عمران میں: ’’واذ اخذ اﷲ میثاق النبیین لما اتیتکم من کتاب وحکمۃ ثم جاء کم رسول مصدق لما معکم لتؤمنن بہ ولتنصرنہ قال أاقررتم واخذتم علیٰ ذلکم اصری قالوا اقررنا قال فاشہدوا وانا معکم من الشاہدین فمن توٰلّیٰ بعد ذلک فاؤلئکہم الفاسقون‘‘ اور جب لیا اﷲ نے اقرار نبیوں کا کہ جو کچھ میں نے تم کو دیا کتاب اور علم پھر آئے تمہارے پاس کوئی رسول کہ سچ بتادے۔ تمہارے پاس والے کو تو اس پر ایمان لاؤ گے اور اس کی مدد کرو گے۔ فرمایا کہ تم نے اقرار کیا اور اس شرط پر لیا میرا ذمہ بولے ہم نے اقرار کیا تو فرمایا تو اب شاہد رہو اور میں بھی تمہارے ساتھ شاہد ہوں۔ پھر جو کوئی پھر جائے اس کے بعد تو وہی لوگ ہیں بے حکم۔
آپ نے بھی نظر مباحثہ دہلی میں ص۱۲۰ میں لکھا ہے۔ آنحضرتﷺ کا تو وہ مرتبہ ہے کہ تمام انبیاء کو بتاکید تمام حکم ہوا ہے اور ان سے اقرار ومیثاق لیاگیا ہے کہ وہ سب حضرتﷺ پر ایمان لاویں اور اس کے ثبوت میں یہی آیت آپ نے لکھی ہے۔ ’’وعن جابرؓ عن النبیﷺ ولوکان موسی حیا ما وسعہ الا اتباعی رواہ احمد والبیہقی فی شعب الایمان‘‘ جابرؓ سے روایت ہے کہ پیغمبر خداﷺ نے فرمایا۔ اگر موسیٰ علیہ السلام میرے وقت میں زندہ ہوتے تو ان کو بھی میری اتباع کے سوا چارہ نہ ہوتا۔
’’وعن جابرؓ عن النبیﷺ ولوکان وادرک نبوتی لاتبعنی رواہ الدارمی‘‘ اگر موسیٰ علیہ السلام میری نبوت کا زمانہ پاتے تو میری اتباع کرتے۔
اور جب نص قرآنی سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا بحکم الٰہی اتباع حضرت خضرؓ کہ وہ نبی نہ تھے کرنا ثابت ہے تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام اگر خاتم النبیین کا اتباع کریں اور ان کے امتی ہو جاویں تو کیا محل استعجاب ہے بالجملہ بعد تسلیم اس تقریر کے جو آپ نے حصص اعلام الناس میں حدیث ’’وامامکم منکم‘‘ کے متعلق لکھی ہے۔ ثبوت اس امر کا مسلم ہے کہ مسیح موعود اس امت میں سے ایک امام ہوگا۔ مگر نہ یہ ہمارے لئے مضر ہے اور نہ مرزاقادیانی کے لئے مفید اور جو امر مرزاقادیانی کے لئے مفید اور ہمارے لئے مضر ہے۔ یعنی مسیح موعود کا نبی بنی اسرائیل نہ ہونا اور