قولہ… ’’احادیث متفق علیہ سے اعلام حصص سابقہ میں ہم ثابت کر چکے ہیں کہ مسیح ابن مریم جو آنے والا ہے وہ اس امت میں سے ایک امام ہوگا۔‘‘
اقول… پہلے اس سے کہ آپ کا جواب لکھا جائے۔ توضیح مطلوب کے لئے عاجز آپ کی نظر مباحثہ دہلی کے ص۱۶۹ کی عبارت نقل کرتا ہے۔ وھو ہذا!
’’پس ثابت ہوا کہ مخبر صادق نے یہ خبر ہی نہیں دی کہ مسیح ابن مریم جو اس امت میں آنے والا ہے۔ وہی عیسیٰ بن مریم بنی اسرائیلی آوے گا۔ جو نبی ورسول بنی اسرائیل کا تھا۔ بلکہ یہ خبر دی ہے۔ وہ مسیح آنے والا تم میں سے ایک ایسا اور ایسا امام ہوگا اور اس کی امامت کتاب اﷲ کے معارف واسرار اور سنت رسول اﷲﷺ کے بیان دقائق وحقائق میں ہوگی۔ جیسا کہ صحیح مسلم میں اس کی بحث واقع ہوچکی۔‘‘
بعد اس کے یہ عاجز عرض کرتا ہے کہ آپ کی اس تقریر میں نظر ہے۔ بچند وجوہ۔
اوّل… حضرت عیسیٰ علیہ السلام جو بنی اسرائیل پر نبی ہوئے تھے۔ دوبارہ بھی وہی آئیں گے۔ آپ کا انکار اگرچہ بموجب الہام مرزاقادیانی کے ہو۔ خلاف ہے قرآن مجید کے اور آپ کا خیال اور مرزقادیانی کا یہ الہام کہ ان کے باپ یوسف تھے کتاب اﷲ کے مقابل دونوں مردود ہیں۔
دوم… جب آپ نے خود اقرار کر لیا کہ: ’’مسیح ابن مریم جو آنے والا ہے۔‘‘ تو اب آپ ہی انصاف کیجئے کہ غلام احمد ابن مریم نہیں ہوسکتا۔
سوم… یہ کہ یہ دعویٰ آپ کا حصص سابقہ اعلام سے ہرگز پایۂ ثبوت کو نہیں پہنچا۔ چنانچہ معاینہ جواب حصص سابقہ سے آپ خود معلوم کر لیں گے جو عنقریب شائع ہونے والا ہے۔ انشاء اﷲ تعالیٰ فانتظرہ!
چہارم… یہ کہ بعد فرض تسلیم اس امر کے کہ آنے والا مسیح اس امت میں سے ایک امام آپ ثابت بھی کریں تو بھی یہ کہاں سے ثابت کر سکتے ہو کہ وہ مثیل عیسیٰ بن مریم ہوگا۔ نہ خود عیسیٰ بن مریم۔ ہوسکتا ہے کہ عیسیٰ بن مریم ہو۔ بلکہ یہی متعین ہے کہ خود ابن مریم ہوں گے۔ ’’کما سیظہر عنقریب‘‘
اب رہا آپ لوگوں کا یہ کہنا کہ ان کا امام اور امتی ہونا ان کی شان نبوت کا مٹانا ہے۔ جیسا کہ القول الفصیح وازالہ اوہام میں ہے۔ تو یہ اعتراض آپ کا قرآن وحدیث سے بے خبری پر محمول ہے۔ اگر آپ قرآن مجید واحادیث شریف کی طرف توجہ کریں تو ہر گز ایسی بے معنی اور بے تکی نہ ہانکا کریں۔ ہرگز ہرگز شان نبوت میں امام اور امتی ہونے سے فرق نہیں آسکتا نہ کہ منافی