آن خلاف عادت باشد بجہت فقدان ادوات وآلات پس بیسار چیز است کہ ظہور آن از مقبولین حق از قبیل خرق عادت شمردہ می شود حالانکہ امثال ہمان افعال بلکہ اقوی واکمل ازان ازار باب سحر واصحاب طلسم ممکن الوقوع باشد پس وقتی کہ بر حاضر ان واقعہ اینقدر ثابت باشد کہ صاحب خارق مہارت درفن سحر وطلسم نمی دارد۔ پس لا بد صدور خارقہ مذکورہ علامت صدق اوتواند بودو لہٰذا نزول مائدہ از معجزات حضرت مسیح شمردہ می شود بخلاف انچہ اہل سحر بسیاری از اشیاء نفیسہ از جنس میوہ وشیرینی باستعانت شیاطین حاضر می آرند ودردوستان وہمنشینان خود افتخارمی نماید چون معنی خرق عادت واضح گشت لابدرین مقام تأمل باید نمود کہ خرق عادت چرا ظاہر می گردد وچگونہ۔
ظاہر می گردد اما اوّل پس باید دانست کہ ظہورخوارق بالذات از اسباب ہدایت نیست گو کہ در حق بعضے سعداء اتفاقاً سبب ہدایت گرددو بلکہ ظہور آن بالذات برایٔ اتمام حجت واسکات مخالفین والزام مجادلین وتادیب گستاخان شوخ چشم وتخویف معاندان پر خشم است ’’وما نرسل بالایات الا تخویفاً‘‘ چہ پر ظاہر ست کہ ہدایت عبارت اس از نوری کہ از رحمت الٰہیہ در قلب سعید ازلی باران صفت میریزو کہ او ابر محبت محبوب حقیقی واطاعت معبود تحقیقی می انگیز وحتیٰ کہ در محبت او جان ومال می بازد در اطاعت او مثل بادپامی تازودو این معنی از مشاہدہ ظہور خوارق کمتر حاصل می شود چہ شخصے کہ در مناظرہ ومجادلہ ملزم ولاجواب می شود دردل او محبت واخلاص کمتر حادث می شود آری حیران وسرگردان ودست وپاگم کردہ ساکت می شود۔ پس ازیں بیان واضح شد کہ ظہور خوارق گاہ گاہ کافی ست وصدور آن ہر باراز لوازم ہدایت نیست ونیز واضح گشت کہ اگر از شخصے خوارق ظہور نمود کسی را از حاضران معنی ہدایت حاصل نگردید ایں باعث نقصان منصب اونمی تواند شدو اما آنکہ چگونہ حادث می شود پس بیانش آنکہ حق جل وعلی بقدرت کاملہ خود در عالم تکوین تصرفی عجیب وغریب بنابر تصدیق مقبولی از مقبولان خودمی نماید نہ آنکہ قدرت صدور خرق عادت دروایجادمی فرمایدواور ابا ظہار آن مامور می نماید حاشا وکلا قدرت تصرف درعالم تکوین از خواص قدرت ربانی است نہ از آثار قوت انسانی۔
قولہ… ’’اور عمل التراب یا تربی کاروائی کا ترجمہ جو جناب نے بین السطور میں شعبدہ لکھا ہے۔ یہ ایک محض افتراء بحث اور اتہام ہے۔ آپ پر لازم ہے کہ یاتو حضرت اقدس مرزاقادیانی کے کلام میں کسی جگہ یہ ثابت کریں۔ ورنہ ایسے افتراؤں سے کیا ہوتا ہے۔‘‘
اقول… جناب مولوی صاحب یوں لکھنا چاہئے تھا کہ اگر ثابت نہ کیا تو تم پر افتراء واتہام کا الزام عائد ہوگا۔ نہ یہ کہ بے تحقیق پہلے ہی سے ملزم ٹھہرا دیا۔ ہاں حضرت میں بھولا، تحقیق کرنا تو