الجواب نمبر۶ کو آپ دوبارہ ملاحظہ فرمائیں۔ مرزاقادیانی پر جو اعتراض ہیں ان کو اٹھائیں۔ یہ ساری تقریر تو آپ کے لئے مفید اور عاجز کے لئے مضر اس وقت ہوتی اگر عاجز یہ کہتا کہ نبی کے لئے معجزہ اور ولی کے لئے کرامت لازمی اور ضروری چیز ہے۔ میں نے تو یہ عرض کیا ہے اور کرتا ہوں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے معجزات کو شعبدہ کہنا یا یہ کہنا کہ وہ آلات وادوات کے ذریعہ سے ایسے معجزے دکھاتے تھے جو خرق عادت نہ تھے اور یہ کہنا کہ اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے یہ معجزات مکروہ اور قابل نفرت نہ ہوتے تو یہ عاجز ان اعجوبہ نمائیوں میں ابن مریم سے کم نہ رہتا قابل اعتراض ہے۔ آپ اکمل اولیاء یا صلحاء کے اقوال میں سے ایک قول بھی ایسا نقل کر دیتے جیسا مرزاقادیانی کا ارشاد ہے تو البتہ قابل التفات ہوتا۔ منصب امامت کی عبارت جو آپ نے نقل فرمائی ہے۔ اس کا مطلب تو صاف یہ ہے کہ افعال باستعانت ادوات وآلات ہوں۔ وہ خرق عادت میں داخل نہیں ہوسکتے اور یہ ظاہر ہے کہ جو افعال انبیاء علیہم السلام یا اولیاء رضوان اﷲ تعالیٰ علیہم اجمعین سے صادر ہوتے ہیں۔ اسی قسم کے بلکہ اس سے بھی اقوی واکمل ارباب سحر واصحاب طلسم سے بھی ممکن الوقوع ہیں۔ مگر ظہور ان کا مقبولین سے از قبیل خرق عادت ہے۔ اس لئے کہ ظہور ان کا بغیر ادوات وآلات محض بقدرت الٰہی بنابر تصدیق مقبولان بارگاہی ہوتا ہے اور ارباب سحر واصحاب طلسم کے وہ افعال بذریعہ ادوات وآلات ہوتے ہیں اور مرزاقادیانی کا یہی بیان ہے کہ وہ نجاری کرتے تھے۔ اس لئے بقوت نجاری یا کسی کل کے ذریعہ سے چڑیاں بنا دی ہوں گی یا بطریق شعبدہ مسمریزم کی قوت سے ایسا کیا ہوگا تو اس عبارت سے آپ نے پورا پورا مرزاقادیانی کو ملزم ٹھہرادیا اور میرے اعتراضوں کی تائید کر دی۔ میں آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور اس عبارت کو بخیال ملاحظہ ناظرین میں بھی نقل کئے دیتا ہوں۔ وھو ہذا!
اما خرق عادت پس بیانش آنکہ حق جل وعلی بقدرت کاملہ خود بنا بر تصدیق انبیاء علیہم السلام چیزے اظہار می فرماید کہ صدور آن چیز بہ نسبت ایشان ممتنع می نماید اگرچہ بہ نسبت دیگر کس ممتنع نباشد تفصیلش آنکہ وجود بعضے اشیاء بحسب عادت اﷲ موقوف می باشد بر فراہم آمدن اسباب وادوات آن چیز پس کسے کہ ادوات وآلاتش حاصل میدارد صدور چیز مذکور از وخرق عادت نیست وکسی کہ ادوات مذکورہ حاصل نمی دارد البتہ صدور آن از وازقبیل خرق عادت ست مثلاً نوشتن بہ نسبت نویسندہ خرق عادت نیست وبہ نسبت امی خرق عادت ست وکشتن بصلاح خرق عادت نیست وبمجرد ہمت ودعا خرق عادت است پس ازیں بیان واضح گشت کہ ایں معنی لازم نیست کہ ہر خرق عادت خارج از مطلق طاقت بشرمی باشد بلکہ ہمیں قدر لازم ست کہ بہ نسبت صاحب خارقہ صدور