وما صلبوہ وما قتلوہ یقینا سے بھی مراد قطعاً روح مع الجسد ہے اور جس کی قتل کا یہود دعویٰ کرتے تھے۔ اس کے قتل وصلب کی نفی اور رفع کا ثبوت حق تعالیٰ کو منظور ہے۔ پس ظاہر نص قرآنی یہی ہے کہ رفعہ سے مراد رفع روح مع الجسد ہے۔ رفعہ کی ضمیر صرف روح کی طرف عائد کرنا یا مضاف مقدر ماننا یعنی تقدیر عبارت یوں کرنا بل رفع روحہ صرف نص کا ظاہر سے ہے اور صرف النص عن الظاہر بغیر صارف قطی کے جائز نہیں اور صارف قطعی یہاں غیرمتحقق ہے۔ ’’ومن یدعی فعلیہ البیان‘‘ اور مؤید اس کی یہ بات ہے کہ ’’بل رفعہ‘‘ میں بل اضراب کا ہے۔ پس وہ رفع مراد ہونا چاہئے۔ جو مقابل ہو قتل کا یعنی قتل کے ساتھ جمع نہ ہو سکے اور رفع روحانی قتل کے ساتھ جمع ہو سکتا ہے۔ عموماً اہل اسلام جانتے ہیں کہ شہداء جو اﷲ کی راہ میں قتل ہوتے ہیں ان کے لئے بھی رفع روحانی ہوتا ہے۔ پس متعین ہوا کہ مراد رفع سے رفع روح مع الجسد ہے۔ وہو المطلوب!
اور یہ بات بھی اس کی مؤید ہے کہ رفع کا لفظ صرف دو نبیوں کے لئے آیا ہے۔ ایک حضرت عیسیٰ علیہ السلام۔ دوسرے حضرت ادریس علیہ السلام۔ اس تخصیص کی کیا وجہ ہے۔ رفع روحانی کی تو کچھ ان دونبیوں کے ساتھ خصوصیت نہیں ہے۔ یہ رفع تو سب نبیوں بلکہ عامہ صالحین کے لئے بھی ہوتا ہے۔ اثر صحیح ابن عباس جس کے رجال رجال صحیح ہیں اور حکماً وہ مرفوع ہے۔ رفع الروح مع الجسد پر قطعی طور پر دلالت کرتا ہے۔ اس کی عبارت آئندہ نقل کی جاوے گی۔ فانتظر!
مرزاقادیانی نے اس دلیل کے جواب میں یہ لکھا کہ اس آیت میں اس وعدہ کے ایفا کی طرف اشارہ ہے۔ جو دوسری آیت میں ہوچکا ہے اور وہ آیت یہ ہے۔ ’’یعیسیٰ انی متوفیک ورافعک الیٰ (آل عمران:۵۵)‘‘ گویا مرزاقادیانی نے آیت ’’یعیسیٰ انی متوفیک ورافعک الیّ‘‘ کو صارف ٹھہرایا۔ ظاہر معنی ’’وما قتلوہ یقیناً بل رفعہ اﷲ الیہ (نسائ:۱۵۷،۱۵۸)‘‘ سے۔ لیکن اس آیت کا صارف ہونا اس وقت ہوسکتا ہے کہ توفی سے مراد قطعاً موت ہو اور یہ متوقف اس پر ہے کہ حقیقی معنی توفی کے موت کے ہوں۔ بلاقرینہ یہ معنی متبادر ہوتے ہوں۔ حالانکہ ہم نے تحریر چہارم میں ثابت کر دیا کہ توفی کا استعمال جس جگہ بمعنی موت قرآن مجید میں آیا ہے۔ وہاں قرینہ قائم ہے اور یہ بھی ثابت کر دیا کہ حقیقی معنی توفی کے اخذ الشیٔ وافیاً کے ہیں۔ یعنی کسی چیز کا پورا لینا اس آیت کو اگرچہ خاکسار نے تحریر اوّل میں غیر قطیعۃ الدلالۃ لکھا ہے۔ مگر اب میری رائے یہ ہے کہ یہ آیت بھی قطیعۃ الدلالۃ ہے۔ حیات مسیح علیہ السلام پر۔ تیسری دلیل سورۂ آل عمران کی یہ آیت ہے۔ ’’ومکروا ومکر اﷲ واﷲ خیر