پس یہ آیت کیسی قطیعۃ الدلالۃ ہوسکتی ہے۔ اس کا جواب خاکسار کی طرف سے دیاگیا کہ آیت کا ذوالوجوہ ہونا اور اس کی معنی میں چند احتمالات کاہونا منافی قطعیۃ نہیں ہے۔ کیونکہ ہم نے سب وجوہ واحتمالات مخالفہ کو دلیل الزامی وقطعی سے باطل کر دکھایا۔ دوسرا اعتراض یہ ہوا کہ اثر ابن عباس وقرأت ابی بن کعب اس پر دال ہے کہ مرجع موتہ کا کتابی ہے۔ نہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس کا جواب خاکسار کی طرف سے یہ ہوا کہ اثر وقرأت مجروح ہیں۔ احتجاج کے لائق نہیں ہیں۔ چہ جائیکہ صارف قطعی ہوں۔ ایک طریق اثر مذکور میں ایک راوی ابوحذیفہ ہے۔ یہ ابوحذیفہ یا موسیٰ بن مسعود ہے۔ یا یحییٰ بن ہانی بن عروہ کا شیخ ہے۔ پہلا سیٔ الحفظ ہے۔ دوسرا مجہول ہے اور اس طریق میں عبداﷲ بن ابی نجیح یسار المکی ہے۔ وہ مدلس ہے اور عنعنہ مدلس کا مقبول نہیں ہے۔ دوسرے طریق میں محمد بن حمید رازی ہے۔ وہ ضعیف ہے۔ تیسرے طریق میں عتاب بن بشیر وخصیف واقع ہیں۔ روایات عتاب کے خصیف سے مناکیر ہیں اور خصیف میں بہت جرح ہے۔ چوتھے طریق میں سلیمان بن داؤد طیالسی ہے۔ وہ کثیر الغلط ہے۔ ہزار احادیث کی روایت میں اس نے خطا کی ہے۔ قرأت ابی بن کعب کی روایت میں بھی عتاب وخصیف واقع ہیں۔ عبارات ان راویوں کے متعلق تحریر چہارم میں منقول ہیں۔ من شاء فلیر اجع الیہ!
دلیل دوم میں سورہ نساء کی یہ آیت ہے۔ ’’وما قتلوہ یقینا بل رفعہ اﷲ الیہ وکان اﷲ عزیزاً حکیما (نسائ:۱۵۷،۱۵۸)‘‘
شاہ ولی اﷲ صاحب اس کے ترجمہ میں لکھتے ہیں۔ وبیقین نہ کشتہ انداورا بلکہ برداشت اورا خداتعالیٰ بسوئے خود وہست خدا غالب استوار کار۔
شاہ رفیع الدین صاحب لکھتے ہیں اور نہ مارا اس کو بیقین بلکہ اٹھا لیا اس کو اﷲ نے طرف اپنے اور ہے اﷲ غالب حکمت والا۔
شاہ عبدالقادر صاحب لکھتے ہیں اور اس کو مارا نہیں بے شک بلکہ اس کو اٹھا لیا اﷲ نے طرف اپنے اور ہے اﷲ زبردست حکمت والا۔
فائدہ میں لکھتے ہیں۔ فرمایا کہ اس کو ہرگز نہیں مارا حق تعالیٰ نے۔ اس کی ایک صورت ان کو بنادی۔ اس صورت کو سولی پر چڑھایا۔ انتہی ملحضاً!
وجہ استدلال یہ ہے کہ مرجع رفعہ کی ضمیر کا مسیح بن مریم رسول اﷲ ہے اور مراد مرجع سے قطعاً روح مع الجسد ہے۔ کیونکہ مورد قتل روح مع الجسد ہے۔ نہ صرف روح اور ایسا ہی ضمائر وماقتلوہ