نمبر۶ کو اور وہاں جو کچھ میں نے اپنی رائے لکھی ہو آپ خود ملاحظہ کر لو۔ پھر مولوی صاحب کے جواب اور عاجز کے جواب الجواب کو دیکھو اور انصاف کرو۔ مصرعہ
مسلمانوں ذرا کہنا خدا لگتی
ہاں اب میں چند اعتراض کرتا ہوں۔ مولوی صاحب ان اعتراضوں کو اٹھائیں۔ قرآن مجید میں اﷲتعالیٰ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا قول یہ نقل فرمایا ہے۔ ’’انی اخلق لکم من الطین کہئۃ الطیر فانفخ فیہ فیکون طیراً باذن اﷲ (آل عمران:۴۹)‘‘ {میں بنا دیتا ہوں تم کو مٹی سے صورت جانور کی۔ پھر اس میں پھونک مارتا ہوں تو وہ ہو جائے اڑتا جانور اﷲ کے حکم سے۔}
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے اس قول کی نسبت مرزاقادیانی کا عرفان یہ ہے۔
قولہ… ’’ایسا معجزہ دکھانا عقل سے بعید نہیں۔ کیونکہ حال کے زمانہ میں بھی دیکھا جاتا ہے کہ اکثر صناع ایسی ایسی چڑیاں بنالیتے ہیں کہ وہ بولتی بھی ہیں اور ہلتی بھی ہیں اور دم بھی ہلاتی ہیں اور میں نے سنا ہے کہ بعض چڑیاں کل کے ذریعہ سے پرواز بھی کرتی ہیں۔ بمبئی اور کلکتہ میں ایسے کھلونے بہت بنتے ہیں اور یورپ اور امریکہ کے ملکوں میں کثرت سے ہیں اور ہر سال نئے نئے نکلتے آتے ہیں… ماسواء اس کے یہ بھی قرین قیاس ہے کہ ایسے ایسے اعجاز طریق عمل الترب یعنی مسمریزمی طریق سے بطور لہو ولعب نہ بطور حقیقت ظہور میں آسکیں۔‘‘
(ازالہ اوہام حصہ اوّل ص۳۰۴،۳۰۵، خزائن ج۳ ص۲۵۵،۲۵۶ حاشیہ)
(اب لہو ولعب کل معجزوں کی نسبت فرمادیا)
ناظرین! آپ نے سمجھا کہ اس تقریر سے مرزاقادیانی کا مقصد صرف یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے معجزات جس کا وہ دعویٰ فرماتے ہیں۔ ایسی وقعت کے قابل نہیں کہ مرزاقادیانی اس طرف توجہ فرمائیں۔ کیونکہ اس لہو ولعب سے مرزاقادیانی کا کیا تعلق۔ مرزاقادیانی کی شان تو اس سے بالا واعلیٰ ہے۔ اسی محل پر واسطے بے وقعت دکھانے ان معجزات کے ایک یہ تقریر بھی مرزاقادیانی فرماتے ہیں۔ ’’تاریخ سے ثابت ہے کہ ان دنوں میں ایسے امور کی طرف لوگوں کے خیالات جھکے ہوئے تھے کہ جو شعبدہ بازی کی قسم میں سے اور دراصل بے سود اور عوام کو فریفتہ کرنے والے تھے۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۳۰۲، خزائن ج۳ ص۲۵۴ حاشیہ)
اور اسی موقع پر مرزاقادیانی نے بھی تقریر اپنی غرض کے ثبوت میں گھڑ دی۔