بس اب جناب مولوی صاحب آپ کو مرزاقادیانی کے دوسرے اقوال نقل کرنے اور زیادہ کوشش کرنے کی ضرورت نہیں۔ یہ جواب کافی ہے جو مرزاقادیانی نے اپنے اظہار میں اپنے قلم سے لکھا ہے کہ دس بارہ برس پہلے یہی اعتقاد تھا۔ اب بدل گیا۔ اس میں کسی کو کیا زور۔ کیونکہ ازالہ مرزاقادیانی کا اب تیار ہوا ہے اور ایک یہ بھی جواب ہے کہ نیچریوں، آریوں، یہودیوں وغیرہ کے سمجھانے کو یہ بات لکھ دی ہے کہ مسیح یوسف نجار کا بیٹا ہے اور کوئی مسلمان دریافت کرے تو کہہ دیا کہ مجازی طور پر لکھا ہے۔ دوسرے مقاموں میں دیکھ لو۔ چنانچہ خواجہ یوسف صاحب وکیل علی گڑھ سے ۲۱؍اکتوبر ۱۸۹۱ء کی شب کو جو زبانی گفتگو مرزاقادیانی کی ہوئی۔ اس کے سننے والے ابھی زندہ ہیں۔ لیجئے حضرت مولوی صاحب دو جواب تو میں نے بتادئیے۔ اب حضور کو عاجز کے مقابل تو جواب لکھنے کی تکلیف اٹھانی عبث ہے۔ ہاں بہت سے بھولے ناواقف ہیے کے اندھے ایسے بھی ہوں گے جو آپ کے ان ابلہ فریب باتوں پر فریفہ ہو جائیں گے۔ اﷲتعالیٰ اپنے فضل وتوفیق سے بچائے ؎
برا ہے عشق کا انجام یا رب
بچانا فتنۂ آخر زمان سے
قولہ… ’’آگے رہی بحث معجزات کی کہ فن نجاری میں بھی کوئی معجزہ واقع ہوسکتا ہے یا نہیں ۔سو گزارش یہ ہے کہ فن نجاری کوئی معیوب فن نہیں ہے۔‘‘
اقول… عاجز نے تو معیوب نہیں لکھا بلکہ معناً یہ لکھا ہے کہ جو اسے معیوب سمجھے اور کسی کی عزت پر یہ لفظ کہہ کر داغ لگانا چاہے کہ فلاں بڑھئی کا لڑکا ہے۔ اس کی کیا عزت تو یہ کہنے والا خارج اس عقل ودین ہے۔ خاص کر اس صورت میں کہ وہ بڑھئی کا لڑکا ہو بھی نہیں تو اس شخص نے جھوٹ بھی بولا۔ یہ تو جناب کی عبارت اردو میں اور وہ بھی ایسی موٹی بات میں خوش فہمی ہے کہ آپ یہ فرماتے ہیں کہ فن نجاری معیوب نہیں۔
ناظرین! اب میں آپ کو مرزاقادیانی کی عبارت سناتا ہوں اور مولوی احسن صاحب کو اس اﷲتعالیٰ بزرگ اور برتر کی قسم دے کر جس کے قبضۂ قدرت میں ہدایت وضلالت عزت وذلت ہے۔ یہ کہتا ہوں کہ میرے وہ الفاظ نقل کر کے بتائیں جن سے میں نے فن نجاری کے معیوب ہونے کے طرف اشارہ کیا ہو یا ان سے ضمناً یہ اشارہ پیدا ہوتا ہو۔ اگر مولوی صاحب نقل نہ کر سکے اور ضرور نقل نہیں کر سکیں گے تو آپ کو میری تمہید بالا کے یقین کرنے میں کوئی شبہ کا موقع نہ رہے گا اور اس گروہ کی عادت سے واقف ہو جاؤ گے اور میرے خط نمبر۲ میں مرزاقادیانی کے فقرہ