ہے۔ اب ناظرین غور فرماسکتے ہیں کہ اس قدر اس محل پر عاجز کا عرض کرنا بے جا ہے یا بجا اور مولوی صاحب کا اس موقع پر عاجز کی نسبت یہ غصہ اور طول کلامی درست ہے یا سراسر تحکم؟
قولہ… ’’ایہا الناظرین ذرا ازالہ کو دیکھنا چاہئے کہ حضرت اقدس مرزاقادیانی کیا لکھتے ہیں۔ واضح ہو کہ کوئی معترض حضرت اقدس مرزاقادیانی پر یہ اعتراض کرتا ہے کہ تمہارے کلام میں سب وشتم ہے۔ حضرت اقدس مرزاقادیانی اس کا جواب یہ دیتے ہیں۔‘‘
اقول… اے جناب احسن المناظرین ذرا ہوش میں آکر بات کرو۔ دوبارہ میرے خط نمبر۲ کو ملاحظہ فرماؤ عاجز نے یہ کب لکھا ہے کہ مرزاقادیانی کسی کے جواب میں نہیں لکھتے۔ میرا اعتراض تو مرزاقادیانی کی طرز ادا پر ہے۔ کیا جب کوئی ہم کو کہے کہ تم گالیاں بہت بکتے ہو تو معاذ اﷲ ہم کو یہ جواب دینا زیبا ہے کہ سارا قرآن شریف گالیوں سے بھرا ہوا ہے۔ ’’لاحول ولا قوۃ الا باﷲ‘‘ مجھے یاد آیا کہ دہلی میں ایک صاحب مطبع پر جو ابھی تک زندہ ہے۔ جس کا نام ظاہر کرنا میں نہیں چاہتا۔ لذت النساء کے چھاپنے پر مقدمہ فوجداری قائم ہوا۔ فرد جرم قرار داد لگائی گئی۔ بحث کے وقت اس بے حیا ملزم نے مجسٹریٹ کے روبرو آیہ حرث بیان کر کے کہا کہ قرآن میں بھی فرج اور آسنوں کا ذکر ہے۔ مجسٹریٹ نے اپنے فیصلہ میں لکھا کہ سو روپے جرمانہ اصل جرم کی سزا میں، بیس روپے جرمانہ بابت اس جرم کے کہ ملزم نے ہمارے مواجہ میں قرآن شریف کی نسبت گستاخی کی۔
ناظرین! اس نصرانی مجسٹریٹ کے انصاف کو ملاحظہ فرمائیے اور قادیانی مولوی صاحب کی دلیری کو کہ کس جوش کے ساتھ آپ تحریر فرماتے ہیں کہ مرزاقادیانی پر کوئی معترض اعتراض کرتا ہے کہ تمہارے کلام میں سب وشتم ہے۔ مرزاقادیانی یہ جواب دیتے ہیں کہ سارا قرآن شریف گالیوں سے پر ہے۔ استغفراﷲ! خوش اعتقادی اور خوش فہمی احسن المناظرین کی کس حد تک پہنچی ہے۔ اے مولوی صاحب آپ کو کیا ہوگیا۔ آپ تو محی السنہ مشہور تھے۔
کمین میں ہے مؤمن وہ کافر صنم
بس اب پاسبانی دین ہوچکی
قولہ… نمبر۴: ’’یہ بھی بجواب معترض کہاگیا ہے۔‘‘
اقول… جوابہ مرّآنفاً۔
قولہ… نمبر۵: ’’میں آپ سے دریافت کرتا ہوں کہ جو شخص بحوالہ آیت ’’انی اخلق لکم من الطین‘‘ کے یہ اعتقاد رکھے۔‘‘