قولہ… ’’اے مولوی صاحب اتق اﷲ‘‘
اقول… اے جناب احسن المناظرین صاحب اگر واقعی آپ کو قیامت پر ایمان ہے اور اﷲ اور رسول سے شرم۔ تو اوّل اس معترض اور کتاب کا نام بحوالہ سنہ طبع وصفحہ بتا دیجئے۔ جس میں بقول جناب کے کسی معترض نے حضرت عیسیٰ بن مریم علیہما السلام پر یہ اعتراض کیا ہے۔ بعد تصحیح نقل کے جو کچھ لام کاف جناب نے عاجز کے حق میں تحریر فرمایا ہے اور دل کے پھپولے پھوڑے ہیں اور بخار نکالا ہے سب بجا اور درست ہے۔ ورنہ میرے طرف سے بھی یہی جواب ہے کہ ’’اتق اﷲ‘‘
قولہ… ’’حضرت میں آپ سے ہارا اور پھر ہارا۔‘‘
اقول… واہ جناب صدقے جائیے آپ کے معلم کے کہ اس سفید ریش پر کیا مناسب الفاظ منہ سے نکلتے ہیں۔ گویا پھول جھڑتے ہیں۔ میں صحیح عرض کرتا ہوں۔ جناب کے یہ جاؤ بے جاطعن، طنز یہ ٹھٹھول وظرافت عاجز کو کچھ نہ ابھارتی ہے۔ نہ اشتعال کا سبب ہوتی ہے۔ پھر اس سے کیا فائدہ اور یہ جو کہیں کہیں عاجز کے قلم سے کوئی بات نکل گئی ہے۔ یہ جناب ہی کی تقریر کا اعجاز ہے۔ ورنہ عاجز کو اس سے پہلے کبھی اس شکایت وظرافت لکھنے کا اتفاق نہیں ہوا ؎مردے کو جلاتی ہے تری تازگی تقریر
اعجاز کا اعجاز ہے تقریر کی تقریر
قولہ نمبر:۳ یہ اعتراض بھی ’’لا تقربوا الصلوٰۃ‘‘ سے آگے بڑھا ہوا ہے۔
اقول… اے حضرات ناظرین باتمکین! اﷲتعالیٰ مجھ کو اور آپ کو اپنی رحمت عام سے اپنی رضا جوئی کی توفیق دے اور میرے بھائی فرضی مسیحیوں کو بھی قلب سلیم اور دماغ روشن عنایت فرمائے کہ وہ حق وباطل میں تمیز کریں۔ بات یہ ہے کہ میرے مخاطب چونکہ ایک مولوی صاحب ہیں اور وہ بھی فرضی مسیحیوں میں احسن المناظرین اور اپنے مسیح کی تمام تصنیف دیکھے بھالے اس وجہ سے میرے فہم نے قصور کیا کہ تفصیل کی ضرورت نہ سمجھا۔ مولوی صاحب اب میں حضور کے ذہن کے موافق تفصیل کئے دیتا ہوںَ اچھی طرح سن لیں۔ اے ناظرین! اس گروہ کا یہ قاعدہ ہے کہ جب کسی پر اعتراض کرنا یا کسی کو برا کہنا یا اس پر سب وشتم کرنا چاہتے ہیں تو اپنے دل کے بخار نکالنے کے لئے یہ ذریعہ گھڑ لیتے ہیں کہ اوّل کوئی اعتراض اس کی طرف سے اپنے اوپر گھڑتے ہیں۔ پھر دل کھول کر اس پر سب وشتم کرتے ہیں اور غرض اس سے یہ ہوتی ہے کہ سامعین کے دل میں اس شخص یا اس کے کلام کی وقعت مرزاقادیانی سے یا مرزاقادیانی کے کلام سے زیادہ نہ دکھائی دے یا بالکل جاتی رہے۔ چنانچہ مرزاقادیانی ۱۷؍اکتوبر ۱۸۹۱ء کو ایک اشتہار حضرت شیخ الکل جناب مولانا سید محمد