قولہ… ’’بعض صاحبوں نے اس کے استغاثہ کا مجھ کو مشورہ دیا۔‘‘
اقول… اگر اﷲتعالیٰ کے مواخذہ پر چھوڑتے تو اس قدر اس بے جا اور غلط شکایت میں اوراق سیاہ نہ کرتے۔ کیونکہ عند اﷲ اگر وہ اقوال قابل مواخذہ ہیں تو بغیر آپ کی طول بیانی کے بھی اﷲتعالیٰ مواخذہ کرے گا۔ اﷲتعالیٰ ہر شخص کے بیان اور نیت سے واقف ہے۔ ہماری شکایت سے کچھ نہیں ہوتا اور وہ ارحم الرحمین مجھ پر اور آپ پر رحم فرمائے ورنہ ہر بات ہماری قابل مواخذہ ہے۔ ’’وما ابری نفسے ان النفس لا مارۃ بالسوء الا ما رحم ربی ان ربی لغفور رحیم‘‘ مولوی صاحب اگر یہ ارشاد آپ کا سچ ہے تو بے شک مواخذہ کے قابل ہے اور اگر آپ نے گریز مناظرہ کے حیلہ کے لئے عاجز پر تہمت لگائی ہے تو میری حمایت کو اﷲتعالیٰ کافی ہے۔ آپ ضرور استغاثہ کریں۔ خرچ مجھ سے منگالیں ان شاء اﷲ تعالیٰ بے حجت وتکرار پیش کروں گا اور عاجز تو کچھ عرض نہیں کر سکتا۔ جو کچھ آپ فرماتے ہیں اگرچہ یہ بالکل غلط ہے۔ مگر نہ اس کا استغاثہ کرنے کو دل چاہتا ہے نہ یہ منظور ہے کہ میری وجہ سے آپ اﷲتعالیٰ کے مواخذہ میں گرفتار ہوں یا کوئی کلمہ گو جو مجھ کو کچھ کہتا ہے یا کوئی بدسلوکی کرتا ہے میری یہ خواہش نہیں کہ یوم حساب میں اس سے مواخذہ ہو۔ اﷲتعالیٰ سب پر رحم فرمائے اور مجھ پر بھی اور اﷲ کی حکمت ’’لا ملئن جہنم‘‘ پر میرا ایمان ضرور ہے۔ مگر دل نہیں چاہتا کہ ایک شخص بھی اﷲتعالیٰ کے عذاب میں گرفتار ہو۔ ’’ان تعذبہم فانہم عبادک وان تغفرلہم فانک انت العزیز الحکیم‘‘ اور کسی کے برا کہنے کا برا ماننا واقعی لونڈا پن ہے ؎
گراز دشنام رنجی وشوی از مدح خوش طفلے
دلے مرد آنزمان گردی کہ ہر دو گرددت یکساں
قولہ نمبر:۲ ’’مولوی صاحب ذرا اﷲتعالیٰ سے بھی خوف کرنا چاہئے یہ تقریر تو کسی معترض کے اعتراض کی ہے۔ جو مرزاقادیانی نے واسطے جواب دینے کے ازالہ میں نقل کی ہے۔ نہ اس واسطے کہ مرزاقادیانی کے نزدیک حضرت عیسیٰ بن مریم فی الحقیقت اس اعتراض کے مورد ہیں۔‘‘
اقول… مولوی صاحب یہ نصیحت تو آپ کی بہت ہی پسندیدہ ہے۔ اﷲتعالیٰ مجھ کو توفیق عنایت کرے۔ مگر یہ ارشاد آپ کا بالکل غلط ہے۔ یہ تقریر کسی معترض کے اعتراض کی نہیں ہے۔ اگر آپ کو کچھ بھی حمیت اسلام باقی ہے تو مرزاقادیانی سے دریافت کر کے اس کتاب اور معترض کا نام تحریر فرمائیے۔ ’’فان لم تفعلوا ولن تفعلوا فاتقوا‘‘