اور آیت ’’واذ تخلق من الطین‘‘ کے ماننے والوں کو تھوڑا سا ہیرپھیر کر کے مرزاقادیانی نے صاف فرماہی دیا کہ: ’’ایسے خیال رکھنے والے بلاشبہ دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۲۹۷،۲۹۸، خزائن ج۳ ص۲۵۲ حاشیہ) اسی واسطے تو عاجز نے عرض کیا تھا کہ ہر طبقہ میں دس دس بیس بیس نہیں تو دو دو چار چار تو ایسے مسلمان گنوا دیجئے جو مرزاقادیانی کے ہم اعتقاد اور ہم خیال ہوں تو ماسوا کو پھر دائرہ اسلام سے خارج سمجھا جائے۔ مگر افسوس یہ ہے کہ جناب تو دو چار نام بھی ایسے نہیں بتاسکے اور نہ بتاسکتے ہو۔ کیونکہ ایسے اعتقاد کا ایک مسلمان بھی اس تیرہ سو برس میں نہیں گزرا تو اس صورت میں مرزاقادیانی اور ان کے دو چار مخلصوں کے علاوہ سبھی کو کافر سمجھنا پڑے گا۔ نعوذ باﷲ منہا! اور پھر باوجود اس کے کیسی سادگی سے مولوی صاحب فرماتے ہیں کہ: ’’مرزاقادیانی نے تو کسی مسلمان کو کافر یا مشرک نہیں کہا اور ایک لفظ بھی دشنام کا استعمال نہیں کیا۔ مولوی اسماعیل شہیدؒ نے مسلمانوں کو مشرک لکھا ہے۔ تقویۃ الایمان کو دیکھو۔‘‘
آفرین بادتری ہمت کو تراب شیدا
عشق کافر کا کیا آپ مسلمان رہا
قولہ… ’’آپ کے وعظ میں تو کہیں اس سے زیادہ تر سخت الفاظ ہوتے ہیں۔‘‘
اقول… اگر سچے ہو تو تحقیق کراؤ۔ ورنہ اس قدر جواب میری طرف سے کافی ہے۔ ’’لعنۃ اﷲ علے الکاذبین‘‘
قولہ… ’’پھر اس پر طرہ یہ کہ خاص خاص اشخاص کا نام لے کر۔‘‘
اقول… اگر سچے ہوتے تو خود آکر یا کسی معتبر کو بھیج کر جامع مسجد میں کسی معتبر کی گواہی سے اس کی تصدیق کروادیتے اور اب سہی مگر مرزاقادیانی کا خاص خاص اشخاص کو نام لے کر برا کہنا تو میں ثابت کئے دیتا ہوں۔ اگر ایمان ہے تو شرماؤ گے۔ کیونکہ حیاء شعبہ ایمان ہے۔ دیکھو (اشتہار ۱۷؍اکتوبر ۱۸۹۱ئ) جس میں حضرت شیخ الکل کی نسبت لاف وگزاف بکا ہے اور دیکھو تقریر واجب اعلان (۲۳؍اکتوبر ۱۸۹۱ئ) جس میں علاوۂ درشتی کوئی دقیقہ کذب بھی اٹھا نہیں رکھا اور کتاب ’’سجلناہ من عندنا‘‘ کو بھی ملاحظہ فرمالیجئے اور مولوی اسماعیل صاحب علی گڑھی کی نسبت رسالہ فتح الاسلام میں دیکھو کیا کیا لکھا ہے اور مولوی عبدالرحمن لکھو کے والے اور مولوی عبدالحق وغیرہم کی نسبت جو جو کچھ لکھا ہے اس سب حال سے آپ خبردار ہیں۔ کیوں جناب مولوی صاحب یہی انصاف ہے۔ یہی حسن ظن ہے۔ یہی داب مناظرین دین ہے۔ اسی کا نام تقویٰ ہے؟ ’’کبر مقتاً عند اﷲ ان تقولوا ما لا تفعلون‘‘