پس ظاہر ایمان سے وہ ایمان ہے جو قبل زہوق روح کے ہوتا ہے اور صرف نص کا ظاہر سے بغیر صارف قطعی جائز نہیں ہے اور یہاں کوئی صارف قطعی موجود نہیں ہے۔ ’’ومن یدعی فعلیہ البیان‘‘ علاوہ اس کے اس وقت لفظ قبل کو ظاہر معنی سے صرف کر کے بمعنی عندیا وقت کے لینا پڑے گا اور کوئی صارف قطعی یہاں موجود نہیں ہے۔ ’’ومن یدعی فعلیہ البیان‘‘ اس وقت بجائے ’’قبل موتہ‘‘ کے ’’عند موتہ‘‘ یا ’’حین موتہ‘‘ یا ’’وقت موتہ‘‘ کہنا مقتضائے حال تھا۔ اس سے عدول کرنے کی کیا وجہ ہے یا مراد لیؤمنن میں ایمان سے وہ ہے جو قبل زہوق روح کے ہوتا ہے۔ پس اس صورت میں یا یہ حکم عام ہے۔ ہر کتابی کے لئے تو کذب صریح حق تعالیٰ کے کلام میں لازم آتا ہے۔ کیونکہ ہم بالبداہت دیکھتے ہیں کہ صدہا ہزارہا اہل کتاب مرتے ہیں اور اپنے مرنے سے پہلے یعنی قبل زہوق روح کے وہ ایمان شرعی جو معتدبہ اور نافع ہے نہیں لاتے۔ ’’تعالیٰ اﷲ عن ذلک علوا کبیرا‘‘ اور اگر کسی خاص زمانہ کے اہل کتاب کے لئے یہ حکم ہے تو قید ’’قبل موتہ‘‘ کی لاطائل ہوتی ہے۔ یہ کلام تو بیعنہ ایسا ہوا کہ کوئی کہے کہ آج میں نے اپنی موت سے پہلے سبق پڑھ لیا۔ آج میں اپنی موت سے پہلے کچہری گیا۔ ظاہر ہے کہ یہ کلام مجنونانہ ہے۔ ایسا ہی اﷲتعالیٰ کے کلام کا کلام مجنونانہ ہونا لازم آتا ہے۔ ’’تعالیٰ اﷲ عما یقولہ الظالمون‘‘ مرزاقادیانی خود بھی اپنے کتاب توضیح المرام اور ازالۃ الاوہام کے چند مواضع میں ضمیر موتہ کا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف پھیرنا تسلیم کر چکے ہیں۔ اب اگر تسلیم کرتے ہیں تو مدعا ہمارا حاصل ہے اور اگر نہیں تسلیم کرتے تو اس کی وجہ بیان کریں کہ توضیح المرام وازالۃ الاوہام میں کیوں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف پھیری۔ اب بدلیل تحقیقی والزامی ثابت ہوگیا کہ مرجع ضمیر موتہ کا حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہیں اور اس تقدیر پر ہمارا مدعا یعنی حیات مسیح علیہ السلام قطعاً ثابت ہوا۔ فتح البیان میں ہے کہ سلف میں ایک جماعت کا یہی قول ہے اور یہی ظاہر ہے اور بہت سے تابعین وغیرہم اسی طرف گئے ہیں۔ فتح الباری میں ہے۔ ابن جریر نے اس قول کو اکثر اہل علم سے نقل کیا ہے اور ابن جریر وغیرہ نے اس کو ترجیح دی ہے۔ حدیث بخاری ومسلم سے معلوم ہوتا ہے کہ ابوہریرہؓ کا یہی قول ہے۔ ابن عباسؓ سے بھی بسند صحیح یہی منقول ہے اوراس کے خلاف جو روایت ان سے ہے۔ وہ ضعیف ہے۔ جیسا کہ فتح الباری وغیرہ میں مرقوم ہے۔ ابن کثیر میں ہے کہ ابومالک وحسن بصری وقتادہ وعبدالرحمن بن زید بن اسلم وغیرواحد کا بھی قول ہے اور یہی حق ہے۔ مرزاقادیانی کی طرف سے اس دلیل پر دو اعتراض ہوئے۔ ایک یہ کہ یہ آیت ذوالوجوہ ہے۔ چند احتمالات مفسرین نے اس کی معنی میں لکھے ہیں۔