ملاحظہ فرمالیجئے اور اگر حوصلہ ہو تو اس کا جواب لکھئے۔ عاجز جواب الجواب لکھے گا ان شاء اﷲ تعالیٰ!
قولہ… ’’جو اقوال ثمانیہ جناب نے مرزاقادیانی کے ازالہ سے نقل فرمائے ہیں۔ وہ یا تو جناب کی خوش فہمی ہے یا محض خلاف نفس الامر۔‘‘
اقول… ناظرین مولوی صاحب کے اس قول کو ضرور یاد رکھیں (یا محض خلاف نفس الامر) اب اگر مولوی صاحب قصداً جھوٹ نہیں بولتے تو ان اقوال ثمانیہ میں سے ایک تو خلاف نفس الامر بتلا دیں گے اور اگر ان میں سے ایک کو بھی مولوی صاحب خلاف نفس الامر نہ فرمائیں گے تو تمہید میں محض خلاف نفس الامر کہہ دینے سے مولوی صاحب کو اپنا جھوٹ بولنا خود قبول کرنا پڑے گا۔
قولہ… ’’یہ خطاب نفسانی مولویوں اور خشک زاہدوں سے ہے جو آسمانی دروازوں کو بند کرنا چاہتے ہیں۔‘‘
اقول… یہ اوّل ارشاد ہو کہ یہ عرض میری محض خلاف نفس الامر تو نہیں ہے۔ جب واقعی ہے تو مجھے کچھ جواب دینے کی ضرورت نہیں۔ ہاں آپ جیسے خوش فہم لوگوں کے لئے کسی قدر تشریح کی ضرورت ہے۔ کیوں جناب مولوی صاحب وہ کون سے مولوی صاحبان ہیں۔ جن کی نسبت مرزاقادیانی ایسا فرماتے ہیں۔ وہی جو مرزاقادیانی کو کسی درجہ کا بھی نبی نہیں جانتے۔ وہی جو مرزاقادیانی کی وحی کو انبیاء علیہم السلام کی وحی کی طرح دخل شیطان سے منزہ نہیں مانتے۔ وہی جو حضرت محمد رسول اﷲﷺ کی جسمی معراج کے غلط خیال میں پڑے ہوئے ہیں۔ وہی جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے معجزوں کو شعبدہ نہیں کہتے۔ وہی جو مرزاقادیانی کو استعارہ کے طور پر تثلیث میں شریک نہیں سمجھتے اور نہ مرزاقادیانی کو ابن اﷲ کہتے ہیں۔ وہی جو حضرت جبرائیل علیہ السلام کا حضورپاکﷺ کے پاس آنا بموجب حدیث متفق علیہ بروایت عمر بن الخطابؓ مانتے ہیں اور ملائکہ کو ارواح کواکب نہیں جانتے۔ وہی جو لیلۃ القدر کو درحقیقت ایک رات مانتے ہیں اور آیت متضمن ذکر سجدہ آدم کو حضرت آدم ہی کے حق میں جانتے ہیں۔ وہی جو قادیان کی عزت مثل مکہ شریف اور مدینہ منورہ کے قبول نہیں کرتے۔ وہی جو مرزاقادیانی کو مسیح موعود نہیں کہتے۔ بلکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کے ابھی تک منتظر ہیں۔ وہی جو انگریزوں کو دجال نہیں کہتے بلکہ دجال کے حال کو بموجب احادیث صحیحہ کے مانتے ہیں اور ریل کو بموجب ارشاد مرزاقادیانی دجال کا گدھا نہیں کہتے۔ جس پر مرزاقادیانی اقدس سفر کیا کرتے ہیں۔ شاید انہیں عقائد کی وجہ سے مرزاقادیانی ان علماء کے حق میں فرماتے ہیں کہ: ’’میں سچ سچ کہتا ہوں کہ ایک کافر مؤمن ہو جانا تمہارے ایمان لانے سے زیادہ تر آسان ہے۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۶، خزائن ج۳ ص۱۰۵)